محبت بمقابلہ قسمت!حکیم نیاز احمد ڈیالچاہنا اور چاہے جانا ہم سب کی فطری ضرورت ہے ۔ ہم سب زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔یہ الگ بات کہ ہم اس کی حقیقی روح سے ناآشنا رہتے ہوئے زندگی گزار جاتے ہیںمحبت ایک ایسے جذبے اور احساس کا نام ہے جو روح کو سر شاری اور دل و دماغ کو خماری عطا کرتا ہے۔ اگردیکھا جائے تو محبت زہر بھی ہے تریاق بھی ،درد بھی ہے دوا بھی ،مرض بھی ہے شفا بھی ،گُلوں کی مہکار بھی ،کانٹوں کا ہار بھی ،یہ جیت بھی ہے یہ ہار بھی ۔ یہ ہر رنگ میں ایک نیا ڈھنگ لیے ،نیا روپ وسروپ لیے نت نئے بہروپ بدلتی ہے۔دانا کہتے ہیں کہ تین چیزیں انسانی طبیعت کا لازمی خاصہ ہیں۔جو لوگ محبت ضرورت اور عادت کے درمیان پائے جانے والے فرق کو سمجھ لیتے ہیں وہ عمر بھر محبت کی فاتح عالم قوت سے توانا و طاقتور رہتے ہیں۔ماہرین کے نزدیک انسانی خمیر میں تین طرح کے احساسات جبلی طور پر پائے جاتے ہیں۔احساسِ چاہ ،احساسِ واہ اور احساسِ گناہ۔ زندگی میں ہر انسان تین چیزوں کی طلب میں سرگرداں رہتا ہے۔مال،جمال اور کمال یعنی دولت،شہرت اور عورت۔اسی طرح تین لوازمات ایسے ہیں ،جو انسانی شخصیت کو خوبصورت بنانے کے لیے لازمی خیال کیے جاتے ہیں۔عقل،شکل اور عمل یعنی بصیرت،صورت اور سیرت۔ زندگی کو کامیاب و کامران گزارنے کے لیے تین عناصر بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔خود اعتمادی،باہمی تعاون اور سمجھوتہ۔شخصیت میں نکھار اور جازبیت پیدا کرنے کے لیے بھی تین اوصاف کا ہونا ضروری مانا جاتا ہے۔علم،حلم اور حیاء۔زندگی میں کامیابیوں کے حصول کے لیے بھی تین عوامل لازمی سمجھے جاتے ہیں۔عزتِ نفس، صلہ اور پسندیدگی۔ مندرجہ بالا معروضات کی رو سے کہا جاسکتا ہے کہ محبت،چاہت،شہرت،قبولیت،خلوص،وفااور اپنائیت کے لیے جہاں مالِکْ الملک کے کرم کا شاملِ حال ہونا بہت ضروری ہیں وہیں ہماری شخصی خوبیوں ،عادتوں اوررویوںکا بھی بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ہمیں اپنے طور پر اپنے طرزِ عمل، عادات اور رویوں کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم اپنی خامیوں کو مٹانے اور خوبیوں کو بڑھانے کی سعی کر سکیں۔ دانائوںکے نزدیک خامیاں درخت کے زرد پتوں کی مانند ہوتی ہیں اور خوبیاں شگوفوں کی مثل۔جب پتے گرتے ہیں تو شگوفے خو د بخود ہی پھوٹنے لگتے ہیں۔ ذرا کوشش کر دیکھیں آپ ہر دل عزیز ہو کر جئیں گے اور مر کے بھی زندہ رہیںگے۔ ماہرین کی ایک جماعت کے نزدیک تو صرف چاہنا بالکل اہم نہیں ہے،چاہے جانا کچھ کچھ اہم ہوتا ہے جبکہ چاہنا اور چاہے جانا ہی سب کچھ اور سب سے اہم ہوتا ہے۔کچھ لوگ بنا چاہے،بنا خواہش اور کوشش کیے سب کچھ پالیتے ہیں اور بعض حرماں نصیب تمام تر شدتوں سے چاہ کر بھی،خواہش اور کوشش کا ہر گْر آزما کر بھی کچھ نہیں پا سکتے۔شاعر نے کمال خوبصورتی سے اس خیال کو لفظوں میں کچھ یوں ڈھا لا ہے : ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروساں کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بس ٭٭٭
@CaLmInG MeLoDy
Similar Threads:
Bookmarks