سیرِ سحرِ آب زارِ بنگال
رخصتِ سرما کی صبح، سرد، نم، سنگین سی
خواب خاموشی کی تہہ میں اک جھلک رنگین سی
بانس کا جنگل، ہوا، پانی پرانی جھیل کا
سبز ڈر پر رنگ جیسے آسماں کے نیل کا
گرتے جاتے شہر دونوں سمت اک انبار میں
کھنچتی جاتی خاکِ میداں ایک ہی رفتار میں
ہلتے جاتے نقش سے کچھ پھیلتی دیوار پر
بجھ کے گرتے حرف سے حدِّ سفر آثار پر
ہر طرف خوشبو ہوا میں، بن میں قربِ آب کی
ایک پر اسرار خواہش دل میں مرگِ آب کی
Similar Threads:
Bookmarks