Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
ڈھنگ کی بات کہے کوئی، تو بولوں میں بھی
مطلبی ہوں، کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں
یہی مسلک ہے مرا، اور یہی میرا مقام..
آج تک خواہشِ منصب سے الگ بیٹھا ہوں
میرا انداز اہلِ جہاں سے ہے جدا..
سب میں شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں
Last edited by ayesha; 10-08-2014 at 02:54 AM.
ﺩﮐﮫ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﻭﺭﺛﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﯽ ﮨﮯ
ﺟﻮﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ
ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺟﺪﺍ ﺳﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺭﺛﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﯽ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎﻣﺎ ﮨﮯ ﺳﺪﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺷﻨﺎﺳﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﻭﺭﺛﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﯽ ﮨﮯ
چلو ایسا کریں مل کر ستارے بانٹ لیتے ہیں
ضرورت کے مطابق سب سہارے بانٹ لیتے ہیں
محبت کرنے والوں کی تجارت بهی انوکهی ہے
منافع چهوڑ دیتے ہیں، خسارے بانٹ لیتے ہیں
اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پہ قدم رکه کر
ابهی دریائے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں
میری جهولی میں جتنے وفا کے پهول ہیں ان کو
اکٹهے بیٹھ کر اک روز سارے بانٹ لیتے ہیں
محبت کے علاوہ پاس اپنے کچه نہیں محسن
اسی دولت کو ہم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں
Last edited by ayesha; 10-08-2014 at 03:10 AM.
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
جو نفس تها خار گلو بنا، اٹهے تو ہاته لہو ہوئے
وہ نشاط آہ سحر گئی، وہ وقار دست دعا گیا
جو طلب پہ عہد وفا کیا تو آبرو وفا گئی
سر عام ہوئے جب مدعی تو ثواب صدق صفا گئی
ابهی بادباں کو تہہ رکهو، ابهی مظرب ہے رخ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کر چلا گیا
نہ ولولے وہ رہے اور نہ وہ زمانہ رہا
سماں حیات کا لیکن سدا سہانا رہا
خدا بھی مان لیا، بندگی بھی کی اس کی
تعلق اُس سے مگر اپنا غائبانہ رہا
لکھا ہوا مرا ماضی تھا جس کے تنکوں پر
مری اُڑان میں حائل وہ آشیانہ رہا
پروں کے ڈھیر لگے ہیں وہاں وہاں اب بھی
جہاں جہاں کسی پنچھی کا آشیانہ رہا
کہیں کہیں کوئی راحت، کہیں کہیں کوئی غم..
مرے نصیب کا منظر وہی پرانا رہا
قتیلؔ ترکِ مراسم وہ کر گیا پھر بھی
سلوک اس کا مرے ساتھ دوستانہ رہا
جب آنکھیں بُجھ کر راکھ ہُوئیں
جب دل کا جوالا سرد پڑا
جب شام و سحر کے صحرا میں......
خوابوں کے ستارے ریت ہُوئے
جب عمُر رواں کے مَیداں میں
سب زندہ جذبے کھیت ہوئے
اس وقت مجھے محسوس ہوا
”جس عشق میں ساری عمُر کٹی شاید وہ نظر کا دھوکہ تھا
کرنوں سے کسی کے لہجے میں تنویر تھی میری اپنی ہی
شب تاب بدن کے جادو میں خود میرے لہو کا نشّہ تھا“
کل رات مگر جب کھڑکی پر
مہتاب نے آکر دستک دی
خوشبو کی طرح لہرانے لگی
ہر سمت کوئی سرگوشی سی
جب آنکھیں بجھنے لگتی ہوں‘ جب دل کا جوالا سرد پڑے
اُس وقت کسی کو کیا معلوم‘ کون اپنا کون پرایا تھا!
لہجے میں نشہ تھا کس کے سبب اور کس نے کسے مہکایا تھا
ﺍﮔــــــﺮ ﮐــــﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﻮ
ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ
ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻋــــــﺪﻝ ﮐـــﺮﺗﯽ
ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﮐـــــــﺎﺵ
ﺍﺱ ﮐــــــﺎﺵ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺩﺧـــــﻞ ﮐــــﺮﺗﯽ ۔ ۔ ۔ ۔
ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﺳﻮﭺ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺑﺮﺟﺴﺘﮧ ﻧﮑﻼ
مت قتل کرو آوازوں کو..
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اُتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں..
تم خنجر کیوں لہراتے ہیں..
اِس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو..
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ...
ہم پیار سکھانے والے ہیں....
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لَے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا..
جب قتل ہوا سُر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے..
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks