لیلیٰ


رات کی اونچی فصیلوں پر دمکتے لال ہونٹوں والی کالی حبشنیں خنجر بکف

اور فصیلوں سے گھرے جادو بھرے شہروں کی دھندلی روشنی میں ہر طرف
دائروں میں گیت گاتی دلہنوں کے مرمریں ہاتھوں میں بجتے زرد دف

شش جہت کی تیرگی میں دم بہ دم بڑھنے لگی ہے مور پنکھوں کی صدا
چھا رہا ہے کھڑکیوں پر سر نِگوں پھولوں بھری بیلوں کا رنگیں سلسلہ
لگ رہا ہے سرخ ریشم سے سجے کمروں میں شرمیلی نگاہوں کا رسیلا جمگھٹا

کس حسیں خاموش گلشن میں کھلا ہے میری چاہت کا دمکتی پنکھڑیوں والا گلاب
کون سے جادو بھرے کوچے میں بہتی ہے ان آنکھوں کی خمار آگیں شراب
کب فصیلِ شب کے اک پوشیدہ دروازے سے جھانکے گا وہ چمکیلا سراب
بول اے آہستہ رَو بادِ شبانہ کے نرالے نقش دکھلاتے ہوۓ گونگے رباب





Similar Threads: