Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
غزل


دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت

درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے

آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے

جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے

جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خونِ شہیداں ہے کہ زر خانۂ جم ہے

حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے ٭٭٭

Umda Intekhab
Sharing ka shkariya