Umda Intekhabہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانۂ تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھُل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ قافلۂ شوق کی تیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
1967ء
٭٭٭
Sharing ka shkariya![]()
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks