Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
غزل



نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے

صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درودو وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے

نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں

یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے

کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے

نہیں خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اُس آئینہ رُو کی ہے

1967ء
٭٭٭



Umda Intekhab
Sharing ka shkariya