کوئ عاشق کسی محبوبہ سے
گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادٕ صبا
پھر سے چاہے گل افشاں ہو تو ہو جانے دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو
یسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم جو ملاقات کے بعد
اپنا احساسِ زیاں جانئے کتنا ہو گا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ
ان کہی باتوں کا موہوم سا پردا ہو گا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم
کوئ مضموں نہ وفا کا، جفا کا ہو گا
گردِ اّیام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہیں دمِ دید جو بوجھل پلکیں
تم جو چاہو تو سنو اور نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور نہ چاہو نہ کہو
۔۔ 1978ء
(فرمایشیں)
Similar Threads:
Bookmarks