تہوں میں کیا ہے، دریا کی روانی بول پڑتی ہے
اگر کردار زندہ ہوں، کہانی بول پڑتی ہے
جہاں بھی جائیں اک سایہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے
موسم میں بھی تہمت پرانی بول پڑتی ہے
تماشا گاہ سے خاموش کیا گزروں کہ خود مجھ میں
کبھی تُو اور کبھی تیری نشانی بول پڑتی ہے
اسی ہنگامۂ دنیا کی وارفتہ خرامی میں
کوئی شے روکتی ہے، ناگہانی بول پڑتی ہے
٭٭٭
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote



Bookmarks