google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: کر بھلا تو ہو بھلا

    1. #1
      Family Member www.urdutehzeb.com/public_htmlClick image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 Forum Guru's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Location
      Pakistan
      Posts
      1,069
      Threads
      232
      Thanks
      0
      Thanked 34 Times in 30 Posts
      Mentioned
      43 Post(s)
      Tagged
      2895 Thread(s)
      Rep Power
      82

      Pen کر بھلا تو ہو بھلا

      کہتے ہیں کہ ایک بڑی سی مرغی نے ایک بڑے سے ٹوکرے میں بہت سی گھاس پھوس اکٹھا کی اور نرم سی گھاس پر بیٹھ کر بہت سے سفید سفید انڈے دیئے اور پھر دن رات ان انڈوں پر بیٹھنا شروع کیا۔ ایک ہفتہ گزرا، دو گزرے، تین گزرے اور کہیں اکیسویں دن یہ انڈے کھٹ کھٹ ٹوٹنا شروع ہوگئے،ہر انڈے سے ایک ننھا منا سا چوزہ نکلا، ان کے چھوٹے چھوٹے پر تھے۔ یہ چوزے نازک تھے، خوبصورت تھے ہر چوزہ روئی کا گالا دکھائی دیتا تھا۔ مرغی خوش تھی پر پریشان بھی تھی ایک انڈا رہ گیا جس سے ابھی کچھ بھی نہ نکلا تھا۔ بے چاری ماں اسے بھی اپنے پروں سے گرمی پہنچا رہی تھی اور پھر ایک دن اس میں سے بھی ایک ایسا ہی بچہ نکلا۔ ایک ننھا منا سا چوزہ، پر اس چوزے کی ایک ہی ٹانگ تھی، ایک ہی آنکھ تھی، یہ چوزہ بےحد شریر تھا۔ ایک دن اپنی ماں سے کہنے لگا۔
      اماں میں گھر میں نہیں رہوں گا، میں جارہا ہوں یہاں سے، بادشاہ کا محل دیکھنے کے لئے اور پھر وہاں جا کر بادشاہ سلامت سے بھی ملوں گا۔
      مرغی نے کہا ارے میرے پیارے! میرے ننھے لنگٹو ، کیسی باتیں کرتا ہے۔ مجھے ایسی باتوں سے ڈر لگتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو چاہئیے کہ آرام سے گھر پر رہیں اور اپنی ماں کے پروں میں خوب خوب گرم گرم راتیں بسر کریں۔
      چوزے نے کہا نہیں میں جارہا ہوں۔
      مرغی نے کہا رک جاو، رک جاو، تمہارے لئے آگے جانا مشکل ہوگا۔ چوزے نے کہا مشکل کیوں؟
      مرغی نے کہا تمہاری صحت اور تمہارے جسم کی بناوٹ کی وجہ سے تم تھک جاؤ گے۔
      چوزے نے کہا جو ڈرتے ہیں وہ آگے بڑھ نہیں سکتے، میں جارہا ہوں، مجھے خوشی خوشی جانے دو۔
      مرغی نے کہا کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے
      چوزے نے کہا ہاں، خدا حافظ
      اور پھر چوزہ اچک اچک کر مسکراتے ہوئے چل پڑا۔ ایک جگہ آگ جل رہی تھی وہ جلتی ہوئی آگ کے قریب آیا، اپنے آپ کو گرم کیا اور جب جانے لگا تو آگ بول اٹھی.
      آگ نے کہا میاں لنگڑے ذرا اپنی ننھی سی چونچ سے چند تنکے اٹھا کر لاؤ اور مجھے دے دو تاکہ میں ذرا دیر تک جل سکوں اور اس راستے سے گزرنے والوں کو گرمی دے سکوں۔
      چوزے نے کہا نہیں میرے پاس وقت نہیں ہے، میں جلدی میں ہوں۔
      آگ نے کہا کیسی جلدی؟ کہاں جانا ہے تم کو۔
      چوزے نے کہا بادشاہ سلامت کے پاس، آگ نے کہا تم ہوش میں تو ہو نا۔
      چوزے نے کہا ہاں میں جو کہہ رہا ہوں ٹھیک ہی کہہ رہا ہوں۔
      آگ نے کہا ذرا لمحہ بھر رکو اور میری مدد کرو
      چوزے نے کہا نہیں میں کسی کی مدد نہیں کرتا۔
      کچھ اور آگے چل کر چوزے کو ایک چھوٹا سا چشمہ دکھائی دیا، اسے پیاس لگی تھی، پہلے اس نے اپنی پیاس بجھائی، پھر ادھرا دھر دیکھا، چشمے کا پانی راستے کی جانب سرک رہا تھا جس کی وجہ سے چلنا دشوار بن رہا تھا۔ چشمے نے کہا۔
      چشمہ: بجھ گئی پیاس؟ میرا پانی تو بہت ٹھنڈا ہے۔
      چوزہ ہاں پیاس تو بجھ گئی۔
      چشمے نے کہا میاں لنگڑے! میرا ایک چھوٹا سا کام کرو گے۔
      چوزہ: کیا کام ہے؟
      چشمےنے کہا دیکھو میرے راستے میں دو چار کنکر پڑے ہیں جن کی وجہ سے پانی سڑک کی طرف جارہا ہے۔ ان کنکروں کو اپنی چونچ سے ہٹادو تاکہ میں آرام سے بہہ سکوں۔
      چوزے نے کہا میں یہ کام نہیں کر سکوں گا، مجھے بہت دور جانا ہے، میں بادشاہ کا محل دیکھنے جارہا ہوں.
      بھلایہ لنگڑا چوزہ کسی کی بات سنتا ہے، سنی ان سنی کر کے آگے بڑھتا جارہا ہے، شکر ہے کہ اس کی ایک ہی ٹانگ ہے اگر دونوں ٹانگیں ہوتیں تو شاید. یہ خود ہی بادشاہ سلامت بننے کا اعلان کرتا۔ بہرحال ابھی بادشاہ کا محل دور تھا۔ چلتے چلتے اسے کانٹوں سے بھری ایک جھاڑی ملی۔ جھاڑی کے کانٹوں میں ہوا کا دامن پھنس گیا تھا اور وہ ادھر سے ادھر نکل نکل کر چل رہی تھی، اس نے مرغی کے بچے کو دیکھا تو بولی میاں لنگڑے مسافر مجھ پر رحم کر اور مجھے اس جھاڑی سے نکال کر اپنی رحم دلی کا اظہار کر، اس جھاڑی کے کانٹے بڑے تیز ہیںمگر حسب معمول میاں لنگڑے نے ایک نہ سنی ، اپنا سر ہلایا، اور ہوا سے بھی وہی جلدی کا بہانہ بنا کر آگے چل دیا اور کودتے پھاندتے بادشاہ کے محل پہنچ گیا۔ اس دوران بادشاہ کا باورچی ایک چوزہ پکڑنے نکلا تھا۔ بادشاہ سلامت کے ناشتے کے لئے. اس نے یہاں لنگڑے کو اچکتے دیکھا تو جھٹ سے پکڑ لیا اور دیگچی میں ڈال کر دیگچی کو آگ پر چڑھا دیا، میاں چوزے نے چلا کر کہا.
      چوزے نے کہا دہائی ہے، دہائی ہے۔ آگ، بادشاہ سلامت کی دہائی ہے، مجھے مت جلاو
      آگ نہیں نہیں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گی، جب مجھے تمہاری مدد کی ضرورت پڑی تھی تو تم جلدی میں تھے اور اب مجھے جلدی ہے۔
      اتنی دیر میں باورچی لوٹ آیا، اس نے ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو اسے چوزہ پسند نہیں آیا کیونکہ اس کی صرف ایک ہی ٹانگ تھی اور اگر بادشاہ سلامت دوسری ٹانگ کے بارے میں پوچھے گا تو وہ کیا جواب دے گا۔ اس کی بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ باورچی نے چوزے کو دیگچی سے نکال کر باہر پھینک دیا، باورچی خانے میں پانی کی ایک نالی تھی، لنگڑا چوزہ اس کے پاس گیا۔
      چوزے میاں پانی سے! تمہیں بادلوں کی قسم ذرا مجھے ٹھنڈا کرو، میں بالکل جل گیا ہوں۔
      چشمے نے کہا لنگڑے، جب مجھے تمہاری ضرورت تھی تو تم جلدی میں تھے اور میری کوئی مدد نہیں کی حالانکہ اس وقت بھی میں نے تمہاری پیاس بجھائی تھی۔
      چوزے نے کہا یہ دیکھو، یہاں سے ہوا چل رہی ہے، مجھے ڈر ہے کہ ہوا کا یہ جھونکا مجھے باہر نہ پھینک دے۔ اے ہوا! میری مدد کر، مجھ پر رحم کھا، میںا س شہر میں اجنبی ہوں، میرا یہاں کوئی نہیں۔
      ہوا: یاد ہے نا، جب میں نے تم سے مدد کے لئے التجا کی تھی اور اب. مجھ سے مدد چاہتے ہو، اپنے آپ کو عقل مند سمجھتے ہو اور مجھے بے وقوف اور پھر. ابھی تو تم کو بادشاہ سلامت سے بھی ملنا ہے۔
      چوزہ نہیں، میں اب کسی سے ملنا نہیں چاہتا. مل کر مجھے کیا ملے گا۔
      ہوا نے کہا اور میرے پاس بھی وقت نہیں. میں جارہی ہوں۔
      اور یہ کہتے ہوئے ہوا نے زور سے اوپر کا رخ کیا تو میاں چوزہ ایک مینار کی چوٹی پر جا کر اٹک گیا اور ابھی تک وہیں پر لٹکا ہوا ہے اور اب مرغی کا کوئی اور بچہ اگر اس کے پروں سے نکل کر ادھر ادھر چلا جاتا ہے تو وہ دکھیاری مرغی ٹھنڈی سانس بھرتی ہے اور ان سب کو لنگڑے بھائی کی کہانی سناتی ہے۔ اس کی خود غرضی کی کہانی، دوسروں کی مدد نہ کرنے کی داستان، کسی نے سچ کہا ہے. کر بھلا تو ہوا بھلا۔ تم دوسروںکا بھلا چاہو، دوسرے خود ہی تمہارا بھلا چاہیں گے۔


      Similar Threads:



    2. #2
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: کر بھلا تو ہو بھلا

      Quote Originally Posted by Forum Guru View Post
      کہتے ہیں کہ ایک بڑی سی مرغی نے ایک بڑے سے ٹوکرے میں بہت سی گھاس پھوس اکٹھا کی اور نرم سی گھاس پر بیٹھ کر بہت سے سفید سفید انڈے دیئے اور پھر دن رات ان انڈوں پر بیٹھنا شروع کیا۔ ایک ہفتہ گزرا، دو گزرے، تین گزرے اور کہیں اکیسویں دن یہ انڈے کھٹ کھٹ ٹوٹنا شروع ہوگئے،ہر انڈے سے ایک ننھا منا سا چوزہ نکلا، ان کے چھوٹے چھوٹے پر تھے۔ یہ چوزے نازک تھے، خوبصورت تھے ہر چوزہ روئی کا گالا دکھائی دیتا تھا۔ مرغی خوش تھی پر پریشان بھی تھی ایک انڈا رہ گیا جس سے ابھی کچھ بھی نہ نکلا تھا۔ بے چاری ماں اسے بھی اپنے پروں سے گرمی پہنچا رہی تھی اور پھر ایک دن اس میں سے بھی ایک ایسا ہی بچہ نکلا۔ ایک ننھا منا سا چوزہ، پر اس چوزے کی ایک ہی ٹانگ تھی، ایک ہی آنکھ تھی، یہ چوزہ بےحد شریر تھا۔ ایک دن اپنی ماں سے کہنے لگا۔
      اماں میں گھر میں نہیں رہوں گا، میں جارہا ہوں یہاں سے، بادشاہ کا محل دیکھنے کے لئے اور پھر وہاں جا کر بادشاہ سلامت سے بھی ملوں گا۔
      مرغی نے کہا ارے میرے پیارے! میرے ننھے لنگٹو ، کیسی باتیں کرتا ہے۔ مجھے ایسی باتوں سے ڈر لگتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو چاہئیے کہ آرام سے گھر پر رہیں اور اپنی ماں کے پروں میں خوب خوب گرم گرم راتیں بسر کریں۔
      چوزے نے کہا نہیں میں جارہا ہوں۔
      مرغی نے کہا رک جاو، رک جاو، تمہارے لئے آگے جانا مشکل ہوگا۔ چوزے نے کہا مشکل کیوں؟
      مرغی نے کہا تمہاری صحت اور تمہارے جسم کی بناوٹ کی وجہ سے تم تھک جاؤ گے۔
      چوزے نے کہا جو ڈرتے ہیں وہ آگے بڑھ نہیں سکتے، میں جارہا ہوں، مجھے خوشی خوشی جانے دو۔
      مرغی نے کہا کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے
      چوزے نے کہا ہاں، خدا حافظ
      اور پھر چوزہ اچک اچک کر مسکراتے ہوئے چل پڑا۔ ایک جگہ آگ جل رہی تھی وہ جلتی ہوئی آگ کے قریب آیا، اپنے آپ کو گرم کیا اور جب جانے لگا تو آگ بول اٹھی.
      آگ نے کہا میاں لنگڑے ذرا اپنی ننھی سی چونچ سے چند تنکے اٹھا کر لاؤ اور مجھے دے دو تاکہ میں ذرا دیر تک جل سکوں اور اس راستے سے گزرنے والوں کو گرمی دے سکوں۔
      چوزے نے کہا نہیں میرے پاس وقت نہیں ہے، میں جلدی میں ہوں۔
      آگ نے کہا کیسی جلدی؟ کہاں جانا ہے تم کو۔
      چوزے نے کہا بادشاہ سلامت کے پاس، آگ نے کہا تم ہوش میں تو ہو نا۔
      چوزے نے کہا ہاں میں جو کہہ رہا ہوں ٹھیک ہی کہہ رہا ہوں۔
      آگ نے کہا ذرا لمحہ بھر رکو اور میری مدد کرو
      چوزے نے کہا نہیں میں کسی کی مدد نہیں کرتا۔
      کچھ اور آگے چل کر چوزے کو ایک چھوٹا سا چشمہ دکھائی دیا، اسے پیاس لگی تھی، پہلے اس نے اپنی پیاس بجھائی، پھر ادھرا دھر دیکھا، چشمے کا پانی راستے کی جانب سرک رہا تھا جس کی وجہ سے چلنا دشوار بن رہا تھا۔ چشمے نے کہا۔
      چشمہ: بجھ گئی پیاس؟ میرا پانی تو بہت ٹھنڈا ہے۔
      چوزہ ہاں پیاس تو بجھ گئی۔
      چشمے نے کہا میاں لنگڑے! میرا ایک چھوٹا سا کام کرو گے۔
      چوزہ: کیا کام ہے؟
      چشمےنے کہا دیکھو میرے راستے میں دو چار کنکر پڑے ہیں جن کی وجہ سے پانی سڑک کی طرف جارہا ہے۔ ان کنکروں کو اپنی چونچ سے ہٹادو تاکہ میں آرام سے بہہ سکوں۔
      چوزے نے کہا میں یہ کام نہیں کر سکوں گا، مجھے بہت دور جانا ہے، میں بادشاہ کا محل دیکھنے جارہا ہوں.
      بھلایہ لنگڑا چوزہ کسی کی بات سنتا ہے، سنی ان سنی کر کے آگے بڑھتا جارہا ہے، شکر ہے کہ اس کی ایک ہی ٹانگ ہے اگر دونوں ٹانگیں ہوتیں تو شاید. یہ خود ہی بادشاہ سلامت بننے کا اعلان کرتا۔ بہرحال ابھی بادشاہ کا محل دور تھا۔ چلتے چلتے اسے کانٹوں سے بھری ایک جھاڑی ملی۔ جھاڑی کے کانٹوں میں ہوا کا دامن پھنس گیا تھا اور وہ ادھر سے ادھر نکل نکل کر چل رہی تھی، اس نے مرغی کے بچے کو دیکھا تو بولی میاں لنگڑے مسافر مجھ پر رحم کر اور مجھے اس جھاڑی سے نکال کر اپنی رحم دلی کا اظہار کر، اس جھاڑی کے کانٹے بڑے تیز ہیںمگر حسب معمول میاں لنگڑے نے ایک نہ سنی ، اپنا سر ہلایا، اور ہوا سے بھی وہی جلدی کا بہانہ بنا کر آگے چل دیا اور کودتے پھاندتے بادشاہ کے محل پہنچ گیا۔ اس دوران بادشاہ کا باورچی ایک چوزہ پکڑنے نکلا تھا۔ بادشاہ سلامت کے ناشتے کے لئے. اس نے یہاں لنگڑے کو اچکتے دیکھا تو جھٹ سے پکڑ لیا اور دیگچی میں ڈال کر دیگچی کو آگ پر چڑھا دیا، میاں چوزے نے چلا کر کہا.
      چوزے نے کہا دہائی ہے، دہائی ہے۔ آگ، بادشاہ سلامت کی دہائی ہے، مجھے مت جلاو
      آگ نہیں نہیں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گی، جب مجھے تمہاری مدد کی ضرورت پڑی تھی تو تم جلدی میں تھے اور اب مجھے جلدی ہے۔
      اتنی دیر میں باورچی لوٹ آیا، اس نے ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو اسے چوزہ پسند نہیں آیا کیونکہ اس کی صرف ایک ہی ٹانگ تھی اور اگر بادشاہ سلامت دوسری ٹانگ کے بارے میں پوچھے گا تو وہ کیا جواب دے گا۔ اس کی بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ باورچی نے چوزے کو دیگچی سے نکال کر باہر پھینک دیا، باورچی خانے میں پانی کی ایک نالی تھی، لنگڑا چوزہ اس کے پاس گیا۔
      چوزے میاں پانی سے! تمہیں بادلوں کی قسم ذرا مجھے ٹھنڈا کرو، میں بالکل جل گیا ہوں۔
      چشمے نے کہا لنگڑے، جب مجھے تمہاری ضرورت تھی تو تم جلدی میں تھے اور میری کوئی مدد نہیں کی حالانکہ اس وقت بھی میں نے تمہاری پیاس بجھائی تھی۔
      چوزے نے کہا یہ دیکھو، یہاں سے ہوا چل رہی ہے، مجھے ڈر ہے کہ ہوا کا یہ جھونکا مجھے باہر نہ پھینک دے۔ اے ہوا! میری مدد کر، مجھ پر رحم کھا، میںا س شہر میں اجنبی ہوں، میرا یہاں کوئی نہیں۔
      ہوا: یاد ہے نا، جب میں نے تم سے مدد کے لئے التجا کی تھی اور اب. مجھ سے مدد چاہتے ہو، اپنے آپ کو عقل مند سمجھتے ہو اور مجھے بے وقوف اور پھر. ابھی تو تم کو بادشاہ سلامت سے بھی ملنا ہے۔
      چوزہ نہیں، میں اب کسی سے ملنا نہیں چاہتا. مل کر مجھے کیا ملے گا۔
      ہوا نے کہا اور میرے پاس بھی وقت نہیں. میں جارہی ہوں۔
      اور یہ کہتے ہوئے ہوا نے زور سے اوپر کا رخ کیا تو میاں چوزہ ایک مینار کی چوٹی پر جا کر اٹک گیا اور ابھی تک وہیں پر لٹکا ہوا ہے اور اب مرغی کا کوئی اور بچہ اگر اس کے پروں سے نکل کر ادھر ادھر چلا جاتا ہے تو وہ دکھیاری مرغی ٹھنڈی سانس بھرتی ہے اور ان سب کو لنگڑے بھائی کی کہانی سناتی ہے۔ اس کی خود غرضی کی کہانی، دوسروں کی مدد نہ کرنے کی داستان، کسی نے سچ کہا ہے. کر بھلا تو ہوا بھلا۔ تم دوسروںکا بھلا چاہو، دوسرے خود ہی تمہارا بھلا چاہیں گے۔
      بہت عمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



    3. #3
      Respectable www.urdutehzeb.com/public_html KhUsHi's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Posts
      6,467
      Threads
      1838
      Thanks
      273
      Thanked 586 Times in 427 Posts
      Mentioned
      233 Post(s)
      Tagged
      4861 Thread(s)
      Rep Power
      199

      Re: کر بھلا تو ہو بھلا

      Nice sharing






      اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
      پڑھنے میں سیکنڈ
      سوچنے میں منٹ
      سمجھنے میں دِن
      مگر

      ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے





    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •