Wah Bohat Umda
غزل
جمے گی بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے تھے
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بُجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا
ہر ایک قرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ گئے ہیں
قریب آ اے مہِ شبِ غم، نظر پہ کھُلتا نہیں کچھ اس دم
کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے، کون سے نام بُجھ گئے ہیں
بہار اب آ کے کیا کرے گی کہ جن سے تھا جشنِ رنگ و نغمہ
وہ گل سرِ شاخ جل گئے ہیں، وہ دل تہِ دام بُجھ گئے ہیں
***
Sharing ka shukariya![]()
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks