نئی رات
گہن کو اپنے نوشتہ جان کے ، میں نے
روشنیوں سے سارے ناتے توڑ لیے تھے
رات کو اپنی سکھی مان کے
اپنے سارے دُکھ بس اُس سے کہہ کے
جی ہلکا کر لیتی تھی
شام ڈھلے ، تنہائی کے بازو پر سر رکھے سو جاتی
اور نیند کے بے آباد جزیروں میں تنہا
اک تھکی ہُوئی خوشبو کی طرح بھٹکا کرتی!
آج بھی میں تنہا ہوں سفر میں
لیکن خود سے پُوچھ رہی ہوں
میرے وجود کے گرد یہ کیسا ہالہ ہے!
یوں لگتا ہے
چادرِ شب شانوں سے سرکتی جاتی ہے
چاند مرے آنچل میں ستارے ٹانک رہا ہے
Similar Threads:
Bookmarks