http://i43.tinypic.com/2lxc9yh.jpg
http://i60.tinypic.com/n4ec6d.jpg
اردو رسم الخط پر مبنی معروف شعراء کے اشعار کا مجموعہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
Printable View
http://i43.tinypic.com/2lxc9yh.jpg
http://i60.tinypic.com/n4ec6d.jpg
اردو رسم الخط پر مبنی معروف شعراء کے اشعار کا مجموعہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر
ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں
ابھي عشق کے امتحاں اور بھي ہيں
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا ، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر
دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی!
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا ، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی ، وہاں جینے کی پابندی
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھیسکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا ، نہ شکایت زمانہ
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
فردوس جو تیرا ہے ، کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند!
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
تو ابھی رہ گزر میں ہے ، قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر ، پارس و شام سے گزر
تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر!
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مروت حسن عالم گیر ہے مردان غازی کا
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ ، ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے
عالم ہے فقط مومن جاں باز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے!
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
دل بیدار فاروقی ، دل بیدار کراری
مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے ، باطن میں گرفتاری
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
تو عرب ہو یا عجم ہو ، ترا لا الہ الا
لغت غریب ، جب تک ترا دل نہ دے گواہی
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا 'لا الہ الا اللہ'
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قیصری کیا ہے!
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر
ہر شے مسافر ، ہر چیز راہی
کیا چاند تارے ، کیا مرغ و ماہی
غافل نہ ہو خودی سے ، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں ، میری انتہا کیا ہے
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گرہوں
یہی سوز نفس ہے ، اور میری کیمیا کیا ہے!