Reserved Page.................
Printable View
Reserved Page.................
Page Reseved............
برسات
آہ !!! یہ بارانی رات
مینہ، ہوا، طوفان، رقصِ صاعقات
شش جہت پت تیرگی امڈی ہوئی
ایک سانٹے مین گم ہے بزم گاہِ حادثات
آسماں پر بادلوں کے قافلے بڑھتے ہوئے
اور مری کھڑکی کے نیچے کانپتے پیڑوں کے ہات
چار سو آوارہ ہیں
بھولے ، بسرے واقعات
جھکڑوں کے شور میں
جانے کتنی دور سے
سن رہا ہوں تیری بات
٭٭٭
رشتۂ خیال
کبھی کسی بام کے کنارے
اُگے ہوئے پیڑ کے سہارے
مجھے ملی وہ مست آنکھیں
جو دل کے پاتال میں اتر کر
گئے دنوں کی گپھا میں جھانکیں
کبھی کسی اجنبی نگر میں
کسی اکیلے، اداس گھر میں
پری رخوں کی حسیں سبھا میں
کسی بہارِ گریز پا میں
کسی سرِ رہ، کبھی سرِ کو
کبھی پسِ در، کبھی لبِ جو
مجھے ملی ہیں وہی نگاہیں
جو ایک لمحے کی دوستی میں
ہزار باتوں کو کہنا چاہیں
٭٭٭
حدیثِ دل
کبھی تو بن جائے گا سہارا
کسی افق کا کوئی ستارہ
اسی تمنا میں مضطرب ہے
عجیب شے ہے یہ دل ہمارا
گزرتے جھونکوں کے کارواں نے
یونہی کوئی راگنی سنا دی
توا س کے خوابوں میں جاگ اٹھتی
ہے خوبصورت سی شہزادی
بہار کی رت میں جب ہوائیں
سلگتی خوشبو اڑا کے لائیں
تواس کے ہر سمت شور کرتی
ہیں بیتے لمحوں کی اپسرائیں
جہاں کہیں ایک پل کسی نے
اسے کبھی پیار سے بلایا
یہ ایسا مورکھ ہے جان لے گا
بس اب خوشی کا زمانہ آیا
منڈیریں چپ ہیں ستارے جھلمل
ہوا میں گم ہے وہ ماہ کامل
سنا ہوا کو، فسانے غم کے
ارے مرے دل، ارے مرے دل
٭٭٭
غم
یہ سب چاند، تارے
بہاریں، خزائیں، بدلتے ہوئے موسموں کے ترانے
ترا حسن، میری نم آلود آنکھیں
تصور کے ایواں، نگاہوں کی کلیاں، لبوں کے افسانے
یہ سب میرے سانسوں کی جادوگری ہے
مگر مجھ کویہ غم ہے کہ جب میں مروں گا
یہ سب چاند، تارے
بہاریں خزائیں
بدلتے ہوئے موسموں کے ترانے
ترا حسن، دنیا کے رنگیں فسانے
یہ سب مل کر زندہ رہیں گے
فقط اک مری اشک آلود آنکھیں نہ ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
٭٭٭
رات کی اذیت
رات بے حد چپ ہے اور اس کا اندھیرا شرمگیں
شام پڑتے ہی دمکتے تھے جو رنگوں کے نگیں
دور تک بھی اب کہیں ان کا نشاں ملتا نہیں
اب تو بڑھتا آئے گا گھنگھور بادل چاہ کا
اس میں بہتی آئے گی اک مدھ بھری میٹھی صدا
دل کے سونے شہر میں گونجے گا نغمہ چاہ کا
رات کے پردے میں چھپ کر خون رلاتی چاہتو
اس قدر کیوں دور ہو مجھ سے ذرا یہ تو کہو
میرے پاس آ کر کبھی میری کہانی بھی سنو
سسکیاں لیتی ہوائیں کہہ رہی ہیں ’’ چپ رہو ‘‘
٭٭٭
حقیقت
نہ تو حقیقت ہے اور نہ میں ہوں
نہ تیری مری وفا کے قصے
نہ برکھا رت کی سیاہ راتوں میں
راستہ بھول کر بھٹکتی ہوئی سجل ناریوں کے جھرمٹ
نہ اجڑے نگروں میں خاک اڑاتے
فسردہ دل پریمیوں کے نوحے
اگر حقیقت ہے کچھ تو یہ ایک ہوا کا جھونکا
جو ابتدا سے سفر میں ہے
اور جو انتہا تک سفر میں رہے گا
٭٭٭
ابھیمان
میرے سوا اس سارے جگ میں کوئی نہیں دل والا
میں ہی وہ ہوں جس کی چتا سے گھر گھر اجالا ہوا
میرے ہی ہونٹوں سے لگا ہے نیلے زہر کا پیالا
میری طرح کوئی اپنے لہو سے ہولی کھیل کے دیکھے
کالے کٹھن پہاڑ دکھوں کے سر پر جھیل کے دیکھے
٭٭٭
شیش محل
کس سے ملوں اور کس سے بچھڑ وں اس جادو کے میلے میں
آنکھیں اور دل دونوں مل کر پڑ گئے عجب جھمیلے میں
سب کی آنکھیں سجی ہوئی ہیں ارمانوں کے پھولوں سے
سب کے دل گھبرائے ہوئے ہیں چاہ کے تند بگولوں میں
حیرت کی تصویر بنا ہوں رنگ برنگے چہروں میں
ایسا، جو مجھ کو بہلائے، کوئی نہیں بے مہروں میں
٭٭٭
تنہائی
میں نگہت اور سونا گھر
تیز ہوا میں بجتے در
لمبے صحن کے آخر پر
لال گلاب کا تنہا پھول
اب میں اور یہ سونا گھر
تیز ہوا میں بجتے در
دیواروں پر گہرا غم
کرتی ہے آنکھوں کو نم
گئے دنوں کی اڑتی دھول
٭٭٭
دکھ کی بات
بچھڑ گئے تو پھر بھی ملیں گے ہم دونوں اک بار
یا اس بستی دنیا میں یا اس کی حدوں سے پار
لیکن غم ہے تو بس اتنا جب ہم وہاں ملیں گے
ایک دوسرے کو ہم تب کیسے پہچان سکیں گے
یہی سوچتے اپنی جگہ پر چپ چپ کھڑے رہیں گے
اس سے پہلے بھی ہم دونوں کہیں ضرور ملے تھے
یہ پہچان کے نئے شگوفے پہلے کہاں کھلے تھے
یا اس بستی وفا میں یا اس کی حدوں سے پار
بچھڑ گئے ہیں مل کر دونوں پہلے بھی اک بار
٭٭٭
صدا بصحرا
چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور
وہ کہتی ہے ’’ کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں کہتا ہوں میں‘‘
کھولو یہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور
٭٭٭
خالی مکان میں ایک رات
بادل سا جیسے اڑتا ہو ایسی صدا سنی
آواز دے کے چھپ گیا اک سایا سا کوئی
جب لالٹین بجھ گئی کوئی ہوا نہ تھی
سردی تھی کچھ عجیب سی، ٹھنڈے مزار سی
بیمار سی مہک تھی کسی خشک ہار کی
پھوٹی کرن کہیں سے نگاہوں کے زہر کی
باہر گلی میں چپ تھی کسی اجڑے شہر کی
٭٭٭
ایک خوش باش لڑکی
کبھی چور آنکھوں سے دیکھ لیا
کبھی بے دھیانی کا زہر دیا
کھی ہونٹوں سے سرگوشی کی
کبھی چال چلی خاموشی کی
جب جانے لگے تو روک لیا
جب بڑھنے لگے تو ٹوک دیا
اور جب بھی کوئی سوال کیا
اُس نے ہنس کر ہی ٹال دیا
٭٭٭
وعدہ خلافی
آنا تھا اُس کو پر نہیں آئی
یہ بھی عجب ہی بات ہوئی
اسی سوچ میں شام ڈھلی
اور دھیرے دھیرے رات ہوئی
جانے اب وہ کہاں پہ ہو گی
عنبر کی مہکار لیے
بیٹھے رہ گئے ہم تو یونہی
پھولوں کے کچھ ہار لئے
٭٭٭
ع۔۔۔ ا کے لیے
آنکھیں کھول کے سن رہی گوری
میں ہوں وہ آواز
دن کا سورج ڈوب گیا تو
بنے گی گہرا راز
جتنا وقت ملا ہے تجھ کو
اس کو کام میں لا
مجھ کو کھو دینے سے پہلے
میرے سامنے آ
رو رو کر پھر ہاتھ ملے گی
جب دن بیت گیا
٭٭٭
خود کلامی
مر بھی جاؤں تو مت رونا
اپنا ساتھ نہ چھوٹے گا
تیری میری چاہ کا بندھن
موت سے بھی نہیں ٹوٹے گا
میں بادل کا بھیس بدل کر
تجھ سے ملنے آؤں گا
تیرے گھر کی چھت پر
غم کے پھول اگاؤں گا
جب تو اکیلی بیٹھی ہو گی
تجھ کو خوب رلاؤں گا
٭٭٭
ایک دفعہ
اک دفعہ
وہ مجھ سے لپٹ کر
کسی دوسرے شخص کے غم میں
پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی
ایک اور خواہش
خواہشیں ہیں دل میں اتنی جتنے اس دنیا میں غم
شوق سے جلتی جبینیں اور جادو کے صنم
مہرباں سرگوشیاں، نا مہربانی کے ستم
آنکھ کے پر پیچ رستے، ریشمی زلفوں کے خم
اصل میں کیا ہے یہ سب ؟ کچھ بھی پتہ چلتا نہیں
چاند جیسے آسماں کا جو کبھی ڈھلتا نہیں
شعلہ جیسے وہم کا، بجھتا نہیں جلتا نہیں
لاکھ کوشش کر چکا ہوں پھر بھی کچھ سمجھا نہیں
لاکھ شکلیں دیکھ لی ہیں پھر بھی کچھ دیکھا نہیں
گر خبر مل جائے مجھ کو اس نرالے راز کی
ٹوٹ جائے حد کہیں تخئیل کی پرواز کی
٭٭٭
وجود کی اہمیت
تو ہے تو پھر میں بھی ہوں
میں ہوں تو یہ سب کچھ ہے
دکھ کی آگ بھی، موت کا غم بھی
دل کا درد اور آنکھ کا نم بھی
میں جو نہ ہوتا
میری طرح پھر کون
جہاں کے
اتنے غموں کا بوجھ اٹھاتا
دوزخ کے شعلوں میں جل کر
شعروں کے گلزار سجاتا
٭٭٭
وصال کی خواہش
کہہ بھی دے اب وہ سب باتیں
جو د ل میں پوشیدہ ہیں
سارے روپ دکھا دے مجھ کو
جو اب تک نادیدہ ہیں
ایک ہی رات کے تارے ہیں
ہم دونوں اس کو جانتے ہیں
دوری اور مجبوری کیا ہے
اس کو بھی پہچانتے ہیں
کیوں پھر دونوں مل نہیں سکتے
کیوں یہ بندھن ٹوٹا ہے
یا کوئی کھوٹ ہے تیرے دل میں
یا میرا غم جھوٹا ہے
٭٭٭
میں جیسا بچپن میں تھا
میں جیسا بچپن میں تھا
اُسی طرح میں اب تک ہوں
کھلے باغوں کو دیکھ دیکھ کر
بری طرح حیران
آس پاس مرے کیا ہوتا ہے
اس سب سےانجان
٭٭٭
ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا
گرم رنگ پھولوں کا
گرم تھی مہک اُن کی
گرم خون آنکھوں میں
تیز تھی چمک اُن کی
سوچتا ہوں کیا اُس کو
اس حسیں کی باتوں کو
دیکھتا میں کیا اُس کے
خاک رنگ ہاتھوں کو
خوف تھا تمازت میں
عیشِ شب کی شدت کا
در کھلا تھا دوزخ کا
لمس لب کی حدت کا
میں جواب کیا دیتا
اُس کی ان اداؤں کا
ایک شہرِ مردہ میں
دور کی نداؤں کا
سحر زرد باطن میں
پانچ بند اسموں کا
بن گیا تھا جسموں میں
زہر پانچ قسموں کا
٭٭٭
بے سود سفر کے بعد آرام کا پل
پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر
پھر وہی خوابِ تمنا پھر وہی دیوار و در
بلبلیں، اشجار، گھر شمس و قمر
خوف میں لذت کے مسکن، جسم پر اُن کا اثر
موسموں کے آنے جانے کے وہی دل پر نشاں
سات رنگوں کے علم نیلے فلک تک پر فشاں
صبح دم سونے محلے پھیکی پھیکی سہہ پہر
پھول گرتے دیکھنا شاخوں سے فرشِ شام پر
خواب اُس کے دیکھنا موجود تھا جو بام پر
پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر
٭٭٭
حمد قدیم
کیسے گزرے شام
کیوں کر آئے یاد
وہ بھولا ہوا نام
بے چینی ہو دور
دل کو ملے آرام
کب یہ بے کل شام
رنج سے ہو آزاد
کب یہ سونا باب
پھر ہوگا آباد
یہ دیوارِ آب
کیسے ہو پایاب
٭٭٭
میں
کالیاں گھپ ہنیریاں اکھ وچ لگ دی لو
گرمی سردی قہر دی پھلاں ی خوشبو
شکلاں رنگ برنگیاں لنگھدیاں جان کھلو
آندے جاندے رہن گے ایہہ موسم ایہہ لوک
وگدی وادی لہرنوں کوئی نہ سکدا روک
نس نئیں سکدا ایس تو ایہو ای اے تقدیر
فی ایہہ گلاں سوچ کے کیوں ہونواں دلگیر
وہم نہ رکھیا جان داناں دینا دا غم
فکر نہ فاقہ ہو ر داتے کلم کلا دم
٭٭٭
رستے
ایہہ رستے ایہہ لمے رستے
کیڑے پاسےجاندے نیں
بوہت پرانے محلاں اندر
وچھڑے یار ملاندے نیں
اُچیاں ڈونگھیاں جنگلاں اندر
شیراں وانگ ڈراندے
یاں فیر ایویں گھم گھما کے
واپس موڑ لیاندے
٭٭٭
ہونی دے حیلے
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی
ایہہ گلاں ہن کرن دیاں نئیں
ولیے لنگھ گئے توبہ والے
راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں
جو ہویا ایہہ ہونا ای سی
تے ہونی روکیاں روکدی نئیں
اک واری جدوں شروع ہو جاؤے
گل فیر اینویں مکدی نئیں
کج انج وی راہیوں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
٭٭٭
اک اجاڑ شہر
سارے لوکی ٹر گئے نال قضا
گلیاں ہوکے بھر دیاں روندی پھرے ہوا
کندھاں سُنج مسنجیاں* کوٹھے وانگ بلا
کوکاں دین حویلیاں ساڈے ول آ
اجڑے پئے مدان وچ بادشاہوں دے رتھ
قبراں دے وچ سوں گئے مہندیاں والے ہتھ
٭٭٭
ہیں رواں اُس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشت نجدِ یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو
وہ کھڑا ہے اک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اُسے اس خوف میں داخل نہ ہو
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
٭٭٭
کیا خبر کیسی ہے وہ سوادائے سر میں زندگی
ایک سرائے رنج میں ہے یا سفر میں زندگی
ظلم کرتے ہیں کسی پر اور پچھتاتے ہیں پھر
ایک پچھتاوا سا ہے اپنے نگر میں زندگی
ہم ہیں جیسے اک گناہِ دائمی کے درمیاں
کٹ رہی ہے مستقل خاموش ڈر میں زندگی
اک تغیر کے عمل میں ہے جہاں بحر و بر
کچھ نئی سی ہو رہی ہے بحر و بر میں زندگی
یہ بھی کسی زندگی ہے اپنے لوگوں میں منیر
باہمی شفقت سے خالی ایک گھر میں زندگی
٭٭٭
چار دن اس حسن مطلق کی رفاقت میں کٹے
اور اس کے بعد سب دن اس کی حسرت میں کٹے
اس جگہ رہنا ہی کیوں* ان شہروں کے درمیاں
وقت سارا جس جگہ بے جا مروت میں کٹے
اک قیام دلربا رستے میں ہم کو چاہیے
چاہے پھر باقی سفر راہِ مصیبت میں کٹے
چاند پیڑوں سے پرے ہو رک گئی ہوں بارشیں
کاش وہ لمحہ کبھی اُس بت کی صحبت میں کٹے
اک مثالِ بے مثال اب تک ہیں اپنے درمیاں
جن کے بازو جسم و دل حق کی شہادت میں لٹے
کاٹنا مشکل بہت تھا ہجر کی شب کی شب کو منیر
جیسے ساری زندگی غم کی حفاظت میں کٹے
٭٭٭
کتاب عمر کا اک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
ہوئی نجات سفر میں فریبِ صحرا سے
سراب ختم ہوا اضطراب ختم ہوا
برس کے کھل گیا بادل ہوائے شب کی طرح
فلک پہ برق کا وہ پیچ و تاب ختم ہوا
جواب وہ نہ رہا میں کسی کے آگے منیر
وہ اک سوال اور اس کا جواب ختم ہوا
٭٭٭
پنجابی کلام
پت جھر دی شام
وا چلے تے گھر وچ بیٹھیاں کڑیاں دا جی ڈر دا اے
اچیاں اچیاں رکھاں ہیٹھاں پتراں دا مینہ ورہدا اے
لمیاں سُنجیاں گلیاں دے وچ سورج ہوکے بھردا
اپنے ویلے توں وی پہلے تارے ٹمکن لگے نیں
گھپ ہنریاں سوچاں اند دکھ دے دیوئے جگے نیں
دریاواں تے ڈھلدے دن پرچھانوں پیا تردا اے
ہلے تے پتھراں دا وی جی رون نوں کر دا اے
٭٭٭
اُس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
یہ تماشا تھا یا کوئی*خواب دیوانے کا تھا
سارے کرداروں میں بے رشتہ تعلق تھا کوئی
ان کی بے ہوشی میں غم سا ہوش آ جانے کا تھا
عشق کیا ہم نے کیا آوارگی کے عہد میں
ایک جتن بے چینیوں سے دل کو بہلانے کا تھا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
لے گیا دل کو جو اس محفل کی شب میں اے منیر
اس حیسں کا بزم میں انداز شرمانے کا تھا
٭٭٭
غم میں تمام رات کا جاگا ہوا تھا میں
صبحِ چمن میں چین سے سویا ہوا تھا میں
ایک ہفت رنگ ہار گرا تھا مرے قریب
اک اجنبی سے شہر میں آیا ہوا تھا میں
ترتیب مجھ کو پھر سے نئی عمر سے دیا
اک عمر کے طلسم میں بکھرا ہوا تھا میں
پہچان سا رہا تھا میں اطراف شام میں
ان راستوں سے پہلے بھی گزرا ہوا تھا میں
میں ڈر گیا تھا دستکِ غم خوار یار سے
کچھ حادثات دہر سے سہما ہوا تھا میں
خود کھو گیا میں خواہشِ بے نام میں منیر
گھر سے کسی تلاش میں نکلا ہوا تھا میں
٭٭٭
پھر صبح کی ہوا میں جی ملال آئے
جس سے جدا ہوئے تھے اُس کے خیال آئے
اس عمر میں غضب تھا اُس گھر کا یاد رہنا
جس عمر میں گھروں سے ہجرت کے سال آئے
اچھی مثال بنتیں ظاہر اگر وہ ہوتیں
ان نیکیوں کو تو ہم دریا میں ڈال آئے
جن کا جواب شاید منزل پہ بھی نہیں تھا
رستے میں اپنے دل میں ایسے سوال آئے
کل بھی تھا آج جیسا ورنہ منیر ہم بھی
وہ کام آج کرتے کل پر جو ٹال آئے
٭٭٭
اُس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا
اک اور شہر یار میں آنے نہیں دیا
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
منزل ہے اس مہک کی کہاں کس چمن میں ہے
اس کا پتہ سفر میں ہوا نے نہیں دیا
روکا انا نے کاوش بے سود سے مجھے
اس بت کا اپنا حال سنانے نہیں دیا
ہے جس کے بعد عہدِ زوال آشنا منیر
اتنا کمال ہم کو خدا نے نہیں دیا
٭٭٭
غم سے لپٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دنیا سے کٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دن رات بانٹتے ہیں ہمیں مختلف خیال
یوں ان میں بٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
اتنےسوال دل میں ہیں اور وہ خموش در
اُس در سے ہٹ ہی جائیں گے اہسے بھی ہم نہیں
ہیں سختی سفر سے بہت تنگ پر منیر
گھر کو پلٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
٭٭٭