تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھانہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
Printable View
تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھانہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیںیہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گےتمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہامقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگتتمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاقکہو، وہ تذکرۂ نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوںخیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلایہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتاکبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا
نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
یہ مزہ تھا دل لگی کا، کہ برابر آگ لگتینہ تمھیں قرار ہوتا، نہ ہمیں قرار ہوتا
ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتےمگر اپنی زندگی کا، ہمیں اعتبار ہوتا
حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں
مر گئے لاکھوں اسی ارمان میں
گر فرشتہ وش ہوا کوئی تو کیاآدمیت چاہئے انسان میں
اگرچہ آنکھ کا سورج سوا نیزے پہ ہےتمہاری یاد کے موسم ابھی محفوظ ہیں
ہماری ڈائری پڑھنا کبھی تم غور سےکہانی کے لیے یہ غم ابھی محفوظ ہیں
ندیم اس نے نہیں بدلا ہے غم کا پیراہنتو پھر یوں ہے کہ کچھ ماتم ابھی محفوظ ہیں
محبت لازمی ہے مانتا ہوںمگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
تمہارا ہجر کاندھے پر رکھا ہےنہ جانے کس جگہ میں جا رہا ہوں
کوئی تو ہو جو میرے درد بانٹےمسلسل ہجر کا مارا ہوا ہوں
محبت، ہجر نفرت مل چکی ہےمیں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں