تمھارا غم، غم دنیا علوم آگاہی
سبھی عذاب مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
Printable View
تمھارا غم، غم دنیا علوم آگاہی
سبھی عذاب مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
نہ جانے کون ہیں یہ لوگ جو کہ صدیوں سے
پس نقاب مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
اسی لیے تو میں عریانیوں سے ہوں محفوظ
بہت حجاب مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
میں بے خیال کبھی دھوپ میں نکل آؤں
تو کچھ سحاب مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
کوئی حصار مرے چار سو ابھی تک ہے
تمھارا پیار مرے چار سو ابھی تک ہے
بچھڑتے وقت جو سونپ کر گئے مجھے
وہ انتظار مرے چار سو ابھی تک ہے
تو خود ہی جانے کہیں دور کھو گیا ہے مگر
تیری پکار مرے چار سو ابھی تک ہے
میں جب بھی نکلا میرے پاؤں چھید ڈالے گا
جو خارزار مرے چار سو ابھی تک ہے
میں اب بھی گرتے ہوئے پانیوں کی قید میں ہوں
اک آبشار مرے چار سو ابھی تک ہے
کوئی گمان مجھے تم سے دور کیسے کرے
کہ اعتبار مرے چار سو ابھی تک ابھی تک ہے
جو اس کے چہرے پہ رنگ حیا ٹھہر جائے
تو سانس، وقت، سمندر، ہوا ٹھہر جائے
وہ مسکرائے تو ہنس ہنس پڑیں کئی موسم
وہ گنگنائے تو باد صبا ٹھہر جائے
سبک خرام صبا چال چل پڑے جب بھی
ہزار پھول سر راہ آ ٹھہر جائے
وہ ہونٹ ہونٹوں پہ رکھ دے اگر دم آخر
مجھے گماں ہے کہ آئی قضا ٹھہر جائے
میں اس کی آنکھوں میں جھانکوں تو جیسے جم جاؤں
وہ آنکھ جھپکے تو چاہوں ذرا ٹھہر جائے
ِ
ضائع کرتے تھے ملاقاتوں کو
ہم سمجھتے ہی نہ تھے باتوں کو
ان کو عادت ہے میری آنکھوں کی
کون سمجھائے گا برساتوں کو
کتنے معصوم ہے وہ لوگ کہ جو
کچھ سمجھتے ہی نہیں راتوں کو
وہ مجھے دام میں لینے کے لیے
کام میں لایا مداراتوں کو
ہم کہاں مانتے ہیں ذاتوں کو
پاس رکھو سبھی ساداتوں کو
آستینوں پہ توجہ دے کر
تاڑ لیتا ہوں کئی گھاتوں کو
دلوں پہ جبر کی تمام حکمتیں الٹ گئیں
جدائیوں میں اور بھی رفاقتیں سمٹ گئیں
اے ہوائے موسم ذرا مجھے ساتھ رکھ میرے ساتھ چل
میرے ساتھ میرے قدم نہیں میرے پاس میری نظر نہیں
تیرے دیار یاد سے گزر رہا تھا قافلہ
کہیں تو دن پلٹ گئے کہیں شبیں پلٹ گئیں
میں جس کسی محاذ پہ صفیں بدل بدل گیا
میرے مقابلے میں تیری آرزوئیں ڈٹ گئیں
جدائیوں سے دامن خیال تو چھڑا لیا
مگر کئی اداسیاں نصیب سے چمٹ گئیں
عجیب واقع ہے ایک دن سکوت شہر سے
قلم بچا رہے تھے ہم کہ انگلیاں بھی کٹ گئیں
ِ
ان گنت بے حساب آن بسے
آنکھ اجڑی تو خواب آن بسے
دل پیالہ نہیں ___ گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
ہماری آنکھ میں بھی اشک گرم ایسے ہیںکہ جن کے آگے بھرے پانی آبلہ دل کا
اگر چہ جان پہ بن بن گئی محبت میںکسی کے منہ پر نہ رکھا غلہ دل کا
ازل سے تا بہ ابد عشق ہے اس کے لئےترے مٹائے مٹے گا نہ سلسلہ دل کا
کچھ اور بھی تجھے اے داغ بات آتی ہےوہی بتوں کی شکایت وہی گلہ دل کا
بنتی ہے بری کبھی جو دل پر
کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا
اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میںکہنا نہیں مانتے کسی کا
ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھےمنہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا
جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمتسارا سودا ہے جیتے جی کا
آغاز کو کون پوچھتا ہےانجام اچھا ہو آدمی کا
روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمتآنا جانا کبھی کبھی کا
ایسے سے جو داغ نے نباہیسچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا