لگ کے کندھے سے روتا جاتا تھا
آج تک جو بھی ہم مزاج ملا
Printable View
لگ کے کندھے سے روتا جاتا تھا
آج تک جو بھی ہم مزاج ملا
دن کو ہم سے ملا ہے صبر جمیل
رات کو درد کا خراج ملا
تیری یادیں ہی چھانتے ہیں ہم
دیکھو کیسا یہ کام کاج ملا
جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا
روح کا کمرہ بھرا رہتا تھا خالی کر گیا
اب نہ کوئی راہ چیختی ہے نہ کوئی ہمسفر
ایک دو دن کے سفر کو یوں مثالی کر گیا
وقت بھی کیسی عجب شے ہے ہمارے سامنے
اک ذرا بیتا تو سب دنیا خیالی کر گیا
عشق اپنے ساتھ یہ کیسی نرالی کر گیا
چند لمحوں میں طبیعت لا ابالی کر گیا
ہجر کا اسپ پریشاں دل کی ہر اک آرزو
فصل لا وارث سمجھ کر پائمالی کر گیا
پربت پربت اڑے پھرے ہے من پنچھی بے چین
جانے کہاں کہاں لے جائیں سانوریا کے نین
آؤں کہیں چھپ کے روتے ہیں ورنہ نگری میں
کوئی سنے نا ہوک دلوں کی کوئی سنے نا بین
لو دھیرے دھیرے دھندلا ہوتا جاتا ہے مہتاب
بیت چلا ہے جیون، جیسے بیت چلی ہو رین
ہم تو جیسے دل آنکھوں میں لے کے پھرتے ہوں
بیٹھے بیٹھے ہنسی میں رو دیتے ہیں نین
باہر بھی اپنے جیسی خدائی لگی مجھے
ہر چیز میں تمھاری جدائی لگی مجھے
جیون میں آج تیرے لیے رو نہیں سکا
جیون میں آج رات پرائی لگی مجھے
مہندی جچی کچھ ایسے تیرے نرم ہاتھ پر
اک کائنات دست حنائی لگی مجھے
پتی تیری پلک کا کنارا مجھے لگی
شاخ گلاب تیری کلائی لگی مجھے
دھڑکن میں تال تیرے خیالوں کی بج اٹھی
سانسوں میں تیری نغمہ سرائی لگی مجھے
حق میں اسی کے فیصلہ ہر شخص نے دیا
ہر شخص تک اسی کی رسائی لگی مجھے
لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا
جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا
جانے اس دل کو یہ آداب کہاں سے آئے
اس کی راہوں میں نگاہوں کو بچھاتے رہنا
تم گئے ہو تو سر شام یہ عادت ٹھہری
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
تم کو معلوم ہے فرحت کہ یہ پاگل پن ہے
دور جاتے ہوئے لوگوں کو بلاتے رہنا
ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
آپ ہی روٹھنا اور آپ مناتے رہنا
کہیں آرزوئے سفر نہیں، کہیں منزلوں کی خبر نہیں
کہیں راستہ ہی اندھیر ہے کہیں پا نہیں کہیں پر نہیں
مجھے اضطراب کی چاہ تھی مجھے بے کلی کی تلاش تھی
انھیں خواہشات کے جرم میں کوئی گھر نہیں کوئی در نہیں
اے ہوائے موسم ذرا مجھے ساتھ رکھ میرے ساتھ چل
میرے ساتھ میرے قدم نہیں میرے پاس میری نظر نہیں
میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد
ڈھونڈ رہے تھے ویرانوں کو شام کے بعد
میں نے اس کا سوگ منایا کچھ ایسے
خالی رکھا پیمانوں کو شام کے بعد
یاد کرے جب مجھ کو تیری تنہائی
دیکھا کرنا گلدانوں کو شام کے بعد
فرحت چاند کے خوف سے کر لیتا ہوں بند
کمرے کے روشن دانوں کو شام کے بعد
لوگ گھبرائے ہوئے بارش کے
خشک موسم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں
تاریکی پھر سارے عیب چھپا لے گی
لے آنا گھر مہمانوں کو شام کے بعد
کوئی چاند ٹوٹے یا دل جلے یا زمیں کہیں سے ابل پڑے
اہم اسیر صورت حال ہیں ہمیں حادثات کا ڈر نہیں
تاریکی پھر سارے عیب چھپا لے گی
لے آنا گھر مہمانوں کو شام کے بعد
تجھ سے ہم اس لیے ملتے ہیں بہت
ربط پیہم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں
کہا میں نے کہاں ہو تم
جواب آیا جہاں ہو تم
میری تو ساری دنیا ہو
میرا سارا جہاں ہو تم
میری سوچوں کے محور ہو
میرا زور بیاں ہو تم
میں ہوں لفظ محبت ہوں
مگر میری زباں ہو تم
تمھارے خواب مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
کئی سراب مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں