جب بھی جانچا ایک ذرّے کا کمال جب بھی پرکھا پھول پتوں کا جمال
ہم بہت کچھ کہہ چکے پھر بھی ہمیں، جانے کیا کیا، اَن کہا لگنے لگا
Printable View
جب بھی جانچا ایک ذرّے کا کمال جب بھی پرکھا پھول پتوں کا جمال
ہم بہت کچھ کہہ چکے پھر بھی ہمیں، جانے کیا کیا، اَن کہا لگنے لگا
کرب کے ہاتھوں نجانے خون میں، کیا سے کیا بپھرے بھنور اُٹھنے لگے
کیا بگاڑ اُٹھّا نجانے جسم میں، ہر نیا دن حشر زا لگنے لگا
دل میں اُترا ہے عجب اِک وہم سا، وقت اُس کو توڑ ہی کر رکھ نہ دے
وہ کہ ہے اِک عمر سے جو ایک سا، وہ تعلّق کیوں نیا لگنے لگا
ہے بجا ڈر ڈوب جانے کا مگر ڈر نہ چھایا ہو وہ، دل پر اِس قدر
ہم نظر تک میں نہ لاتے تھے جسے، کیوں وہ تنکا، آسرا لگنے لگا
کس نے کس کی پھر دیوار پھلانگی ہے؟
کس سے کون خفا ہے، اِتنی دیر گئے
در کاہے کو کھُلا ہے اِتنی دیر گئے
آنکھ مری کیوں وا ہے اِتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے؟ اِتنی دیر گئے
کس کی آنکھ کی آس کا تارا ٹُوٹا ہے
کس کا چین لُٹا ہے اِتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں، گھُلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے؟ اِتنی دیر گئے
سو گئے سارے بچّے بھی اور جگنو بھی
پھر کیوں شور بپا ہے اِتنی دیر گئے