مجھے دریا، کبھی صحرا کے حوالے کر کے
وہ کہانی کو نیا موڑ دیا کرتا تھا
Printable View
مجھے دریا، کبھی صحرا کے حوالے کر کے
وہ کہانی کو نیا موڑ دیا کرتا تھا
اس سے آگے تو محبت سے گلہ ہے مجھ کو
تو تو بس ہات مرا چھوڑ دیا کرتا تھا
بات پیڑوں کی نہیں غم ہے پرندوں کا ندیم
گھونسلے جن کے کوئی توڑ دیا کرتا تھا
گزر رہا ہوں مگر وقت کے ارادے سے
مرا وجود بندھا ہے ہوا کے دھاگے سے
یہ چاند ٹوٹ کے قدموں میں کیوں نہیں گرتا
یہ کھینچتا ہے مجھے چاندنی کے دھاگے سے
کسے پکاروں یہاں کون چل کے آئے گا
یہاں پہ لوگ نظر آئے بھی تو آدھے سے
میں اس جگہ سے کہیں اور جا نہیں سکتا
بندھا ہوا ہوں مکمل کسی کے وعدے سے
تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی
ختم ہو جائے کہانی بھی ہر اک الجھن بھی
خیر اس ہجر میں آنکھیں تو چلی جاتی ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں کلائی کے نئے کنگن بھی
بھیک مل جاتی ہے اور پانی بھی پی لیتا ہوں
ہاتھ کشکول بھی ہیں اور مرے برتن بھی