پھر تیرا ذکر دل سنبھال گیا
ایک ہی پل میں سب ملال گیا
Printable View
پھر تیرا ذکر دل سنبھال گیا
ایک ہی پل میں سب ملال گیا
ہو لیے ہم بھی اس طرف جاناں
جس طرف بھی تیرا خیال گیا
آج پھر تیری یاد مانگی تھی
آج پھر وقت ہم کو ٹال گیا
تو دسمبر کی بات کرتا ہے
اور ہمارا تو سارا سال گیا
تیرا ہوتا تو پھٹ گیا ہوتا
میرا دل تھا جو غم کو پال گیا
کون تھا وہ کہاں سے آیا تھا
ہم کو کن چکروں میں ڈال گیا
بچھڑنے کے زمانے آ گئے ہیں
اسے کتنے بہانے آ گئے ہیں
اداسی میں گھرے رہتے تھے جب ہم
وہ سارے دن پرانے آ گئے ہیں
نہیں ہیں خوش گرا کر عرش سے بھی
زمیں سے بھی اٹھانے آ گئے ہیں
وہ ہم پر مسکرانے آ گئے ہیں
نیا اک غم لگانے آ گئے ہیں
کسی کی موت کے آثار دل میں
صف ماتم بچھانے آ گئے ہیں
بتا دو موسم گریہ کو فرحت
کہ ہم رونے رلانے آ گئے ہیں
کہاں دل قید سے چھوٹا ہوا ہے
ابھی تک شہر سے روٹھا ہوا ہے
ہمیں کیسے کہیں اس دل کو سچا
ہمارے سامنے جھوٹا ہوا ہے
کسی کا کچھ نہیں اپنا یہاں پر
یہ سب سامان ہی لوٹا ہوا ہے
تمہارے دل میں میری چاہتوں کا
کوئی تو بیج سا پھوٹا ہوا ہے
کسی کے نام لگ جائے بلا سے
یہ دل پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا ہے
ہم تجھے شہر میں یوں ڈھونڈتے ہیں
جس طرح لوگ سکوں ڈھونڈتے ہیں
ہم گو منصور نہیں ہیں لیکن
اس کا انداز جنوں ڈھونڈتے ہیں
جس سے ٹکراتی رہے پیشانی
تیرے دکھ میں وہ ستوں ڈھونڈتے ہیں
وہ تو کھویا ہے کہیں باطن میں
ہم جسے اپنے بروں ڈھونڈتے ہیں
ہم کہ ترسی ہوئی شریانیں ہیں
اور اک قطرہ خوں ڈھونڈتے ہیں
حسن و جمال کے بھی زمانے نہیں رہے
آنکھوں میں اس کی خواب سہانے نہیں رہے
ملنے کو آ ہی جاتا ہے ہر چند روز بعد
لگتا ہے اس کے پاس بہانے نہیں رہے
لرزش ہے ہاتھ میں تو نظر بھی ہے دُھندلی
پہلے سے اب وہ دل کے نشانے نہیں رہے
اُٹھتی نہیں ہیں شوق و تجسّس کے باوجود
آنکھوں کے کتنے کام پرانے نہیں رہے
کمرے سب بھر گئے ہیں مسائل کی گرد سے
دل میں تیرے خیال کے خانے نہیں رہے
ِ جسم تپتے پتھروں پر روح صحراؤں میں تھی
پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھاؤں میں تھی
ایک پر ہیبت سکوت مستقل آنکھوں میں تھا
ایک طغیانی مسلسل دل کے دریاؤں میں تھی
ہم ہی ہو گزرے ہیں خود اپنے شہر اجنبی
وہ جہاں بھی تھی وہاں اپنے شناساؤں میں تھی
اک صدا سی برف بن کر گر رہی تھی جسم پر
ایک زنجیر ہوا تھی جو میرے پاؤں میں تھی
دن مصیبت کے ٹل گئے ہوتے
اپنا رستہ بدل گئے ہوتے
دل کی وحشت نے بڑھ کے گھیر لیا
ورنہ آگے نکل گئے ہوتے
تیرے غم نے قدم اکھیڑ دیے
ورنہ کب کے سنبھل گئے ہوتے
تم نے لوگوں کو کیوں توجہ دی
اپنے ہی آپ جل گئے ہوتے
شکر ہے ہم نہیں ہیں دن ورنہ
شام کے وقت ڈھل گئے ہوتے
درد کی سلطنت کا راج ملا
بے قراری کا تخت و تاج ملا
وقت اک شعبدہ سا ہے اور بس
کل ملا ہے کبھی نہ آج ملا
آنکھ نا ہی کھلے تو بہتر ہے
آنکھ کھولی تو یہ رواج ملا
عشق سے بیاہ ہو گیا اور پھر
دل کی دلہن کو غم کا داج ملا