تیرا وعدہ ابھی تلک
طاق کے اوپر رکھا ہے
Printable View
تیرا وعدہ ابھی تلک
طاق کے اوپر رکھا ہے
اتنا کڑوا عشق سبھی
لوگوں نے کب چکھا ہے
بس اِک چراغ یہ روشن دِل تباہ میں ہے
کہ اُس کی میری جدائی ابھی نِباہ میں ہے
تمہارا ہجر صدی دو صدی تو پالیں گے
ابھی کچھ اِتنی سکت تو ہماری چاہ میں ہے
میں مطمئن ہوں کہ تو مطمئن نہیں دشمن
ابھی تو ایک یہی چال رزم گاہ میں ہے
عجب غرور میرے قلبِ منکسر میں ہے
عجیب عجز میری ذاتِ کج کلاہ میں ہے
میں پُرسکوں ہوں مضافات میں بسیرے پر
کہ شہر بھر کا تماشا میری نگاہ میں ہے
وہ تم جو چھوڑ گئے تھے دُکھا ہوا میرا دل
سفر نے ڈھونڈ لیا ہے رہا سہا میرا دل
کچھ اس طرح سے تعزیت کی آس میں تھا
کسی نے ہنس کے بھی دیکھا تو رو دیا میرا دل
ہے اپنی اپنی رسائی رہ محبت میں
ہے اپنا اپنا طریقہ ترا خدا میرا دل
نگر نے معجزہ مانگا تیری محبت کا
تو جھوم جھوم کے صحراؤں سے اٹھا میرا دل
کسی نے جب بھی یہ پوچھا کہ کون ہے فرحت
تو مسکرا کے ہمیشہ یہی کہا میرا دل
کہو کسی پہ کبھی درد آشکار کیا؟
کبھی کبھی کئی لوگوں کو سوگوار کیا
کبھی کسی کے لیے خود کو بے قرار کیاَ؟
تمام عمر محبت کا انتظار کیا
کسی کو سونپی کبھی اپنے وقت کی تقسیم ؟
کبھی کبھی تیری یادوں سے کاروبار کیا
یہ شہر بھر میں بھلا کیوں اکڑ کے پھرتے ہو؟
ہمیں غرور بہت ہے کہ ہم نے پیار کیا
کوئی تضاد کوئی اختلاف اس دوراں؟
غموں کو کُند کیا دل کو تیز دھار کیا
کہو جو لوگوں پہ احسان کرتے پھرتے ہو؟
خود اپنے دل کو سدا میں نے زیر بار کیا
بتاؤ دُکھ کی ریاضت میں کیا کیا تم نے ؟
اجل کو پھول کیا، زندگی کو خار کیا
دکھ ایسا دریا ہے جو
آنکھ کے رستے بہتا ہے
تنہائی کی بات نہ کر
سارا شہر ہی تنہا ہے
غم میرے دروازے پر
دھرنا مار کے بیٹھا ہے
ہم نے اپنا آپ سدا
اس کے کھوج میں پایا ہے
کالا درد وچھوڑے کا
دور دور تک پھیلا ہے
دل کو دیکھ کے روتا ہوں
کتنا بھولا بھالا ہے
رونے والے بھول گئے
کون کہاں کھویا ہے
بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا
سوچا تو بچھڑنے کا سبب کچھ بھی نہیں تھا
اس بخت میں اب لاکھ زمانہ تجھے چاہے
ہم نے تو تجھے چاہا، تُو جب کچھ بھی نہیں تھا
تو نے میری جاں جھانک کے دیکھا نہ تھا دل میں
چہرے پہ جو تھا وہ تو غضب کچھ بھی نہیں تھا
جو مجھ سے فقیروں کے دلوں میں تھا وہی تھا
لوگوں نے جسے پوجا وہ رب کچھ بھی نہیں تھا
فرحت جو کوئی بھی تھا کہاں سے تھا بس اس کا
اک عشق سوا نام و نسب کچھ بھی نہیں تھا
مدتوں بعد میرا سوگ منانے آئے
لوگ بھولا ہوا کچھ یاد دلانے آئے
بڑھ گیا دل کے جنازے میں ستاروں کا ہجوم
کتنے غم ایک تیرے غم کے بہانے آئے
رات اک اُجڑی ہوئی سوچ میرے پاس آئی
اور پھر اُجڑے ہوئے کتنے زمانے آئے
ایک اک کر کے حوادث بڑی ترتیب کے ساتھ
مرحلہ وار میرا ساتھ نِبھانے آئے
نقش پختہ تھا تیرے غم کا وگرنہ موسم
بارہا دل سے میرے اس کو مٹانے آئے
ِ
دن بھی نہ بیتا رات نہ بیتی
تیری ایک بھی بات نہ بیتی
ٹھہر گئی آ کر آنکھوں میں
تیرے بن برسات نہ بیتی
آنسو رکے نا ان نینوں سے
تاروں کی بارات نہ بیتی
جم سی گئی احساس کے اندر
جیون بیتا مات نہ بیتی