جام ٹوٹے ،صراحیاں ٹوٹیں
یہ بھی اک قتل عام ہے ساقی
Printable View
جام ٹوٹے ،صراحیاں ٹوٹیں
یہ بھی اک قتل عام ہے ساقی
تیرے ہاتھوں سے پی رہا ہوں شراب
مے کدہ میرے نام ہے ساقی
بس گئی ہے میرے احساس میں یہ کیسی مہک
کوئی خوشبو میں لگاؤں ، تری خوشبو آئے
میری آنکھوں میں تِرے پیار کا آنسو آئے
کوئی خوشبو میں لگاؤں ، تری خوشبو آئے
وقتِ رُخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے
ہار پہنانے مجھے پھُول سے بازو آئے
میں نے دن رات خُدا سے یہ دُعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ہو در پر مرے جب تو آئے
ان دنوں آپ کا عالم بھی عجب عالم ہے
تِیر کھایا ہوا جیسے کوئی آہو آئے
اس کی باتیں کہ گل و لالہ پہ شبنم برسے
سب کو اپنانے کا اس شوخ کو جادو آئے
اُس نے چھوکر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد مری آنکھ میں آنسو آئے
جو دُکھ سُکھ بانٹ سکے ،ہم اس کو عورت کہتے ہیں
ورنہ ہر اچھی صورت کو پتھر کی مورت کہتے ہیں
یہ رام جنم بھومی کا لہو، یہ بابری مسجد کی لاشیں
تم اُن کو مذہب کہتے ہو، ہم وحشی سَیاست کہتے ہیں
اس ملک میں ہندو ، مسلم، سکھ، سب پاگل ہوتے جاتے ہیں
ملّا ، پنڈت، نیتا اس کو اللہ کی رحمت کہتے ہیں
دُنیا کے اُجلے کُرتے سے ہم نے تو جوتے پونچھ لیے
وہ شاعر ہیں جورُسوائی کو اپنی شہرت کہتے ہیں
تھا میر جن کو شعر کا آزار مر گئے
غالب تمہارے سارے طرفدار مر گئے
جذبوں کی وہ صداقتیں مرحوم ہو گئیں
احساس کے نئے نئے اظہار مر گئے
تشبیہہ وا ستعار ہ ور مزو کنایہ کیا
پیکر تراش شعر کے فنکار مر گئے
ساقی تری شراب بڑا کام کر گئی
کچھ راستے میں، کچھ پسِ دیوار مر گئے
تقدیسِ دل کی عصیاں نگاری کہاں گئی
شَاید غزل کے سَارے گناہ گار مر گئے
شعروں میں اب جہاد ہے، روزہ نماز ہے
اُردو غزل میں جتنے تھے کفّار مر گئے
اخبار ہو رہی ہے غزل کی زبان اب
اپنے شہید آٹھ ،اُدھر چار مر گئے
مصرعوں کو ہم نے نعرہ تکبیر کر دیا
گیتوں کے پختہ کار گلوکار مر گئے
اسلوب تحت اتنا گرجدار ہو گیا
مہدی حسن کے حاشیہ بردار مر گئے
کوئی بھولا ہوا غم ہے جو مسلمل مجھ کو دل کے پاتال سے دیتا ہے صدا شام کے بعد
مار دیتا ہے اجڑ جانے کا دہرا احساس
کاش ہو کوئی کسی سے نہ جدا شام کے بعد
اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا اس کی آواز کا منتظر تھا نگر ، چاند خاموش تھا
کون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کی کس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھا
وہ جو سہتا ریا رت جگوں کی سزا چاند کی چاہ میں
مرگیا تو نوحہ کناں تھے شجر، چاند خاموش تھا
اس سے مل کے میں یوں خامشی اور آواز میں قید تھا
اک صدا تو مرے ساتھ تھی ہم سفر ، چاند خاموش تھا
کل کہیں پھر خدا کی زمیں پر کوئی سانحہ ہو گیا
میں نے کل رات جب بھی اٹھائی نظر ، چاند خاموش تھا
لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے
جن کو عادت ہو گئی صحراؤں کی
مطمئن ہوتے نہیں گھر بار سے
یہ تو سارا بازوؤں کا کھیل ہے
شہ رگیں کٹتی نہیں تلوار سے
آ گرے ہیں عین ویرانی کے بیچ
کچھ پرندے کچھ شجر بیمار سے
راستوں پہ گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پار سے
پھٹ نہ جائے دل کہیں اصرار سے
اس لیے گزرے نہیں بازار سے
اڑتے اڑتے آخر چاند
دل کی شاخ سے الجھا ہے
ہم تھک ہار کے سوئے ہیں
درد بھلا کب سویا ہے
سرد مزاجی کا موسم
اک مدت سے ٹھہرا ہے
رستے خالی خالی ہیں
کوئی رہ سے گزرا ہے
ایسا زور نصیب میرا
جانے کس نے لکھا ہے