محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا
Printable View
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اُس نے مجھے چھُو کر نہیں دیکھا
بے لباسی جو ہر لباس کی ہے
مفلسی عہدِبدحواس کی ہے
مطمئن ہیں ذرا امیر و غریب
ہر مصیبت مڈل کلاس کی ہے
آئینہ بن گئے در و دیوار
چاندنی یہ اسی لباس کی ہے
سب کو ساقی نے یہ جواب دیا
یہ خطا آپ کے گلاس کی ہے
تیری خوشبو میں دیکھ لیتا ہوں
یہ مہک تیرے آس پاس کی ہے
غزل کو ماں کی طرح با وقار کرتا ہوں
میں مامتا کے کٹوروں میں دودھ بھرتا ہوں
تو آئینہ ہے، تجھے دیکھ کر سنورتا ہوں
کہاں کہاں ترا چہرہ تلاش کرتا ہوں
یہ دیکھ ہجر ترا کتنا خوبصورت ہے
عجیب مرد ہوں سولہ سنگھار کرتا ہوں
بدن سمیٹ کے لے جائے جیسے شام کی دھوپ
تمہارے شہر میں اس طرح گزرتا ہوں
تمام دن کا سفر کر کے روز شام کے بعد
پہاڑیوں سے گھری قبر میں اترتا ہوں
مجھے سکون گھنے جنگلوں میں ملتا ہے
میں راستوں سے نہیں منزلوں سے ڈرتا ہوں
میں آسماں کی شاخ پہ زندہ ہوں دوستو
چمکار کر بلاؤ، پرندہ ہوں دوستو
اب کے فساد نے مجھے یہ بھی بتا دیا
میں آدمی نہیں ہوں، درندہ ہوں دوستو
تم جن کے نیچے بیٹھ کے اوتار ہو گئے
ان برگدوں کا میں بھی پرندہ ہوں دوستو
اخبار میں خبر مر ے مرنے کی چھپ گئی
میں چیختا رہا کہ میں زندہ ہوں دوستو
سچ یہ ہے میری بابری مسجد مُجھی میں ہے
اور میں خُدا کے فضل سے زندہ ہوں دوستو
اب تیرے میرے بیچ ذرا فاصلہ بھی ہو
ہم لوگ جب ملیں تو کوئی دوسرا بھی ہو
تو جانتا نہیں مری چاہت عجیب ہے
مجھ کو منا رہا ہے، کبھی خود خفا بھی ہو
تو بے وفا نہیں ہے مگر بے وفائی کر
اُس کی نظر میں رہنے کا کچھ سلسلہ بھی ہو
پت جھڑ کے ٹوٹتے ہوئے پتوں کے ساتھ ساتھ
موسم کبھی تو بدلے گا ، یہ آسرا بھی ہو
چپ چاپ اس کو بیٹھ کے دیکھو ں تمام رات
جاگا ہوا بھی ہو ،کوئی سویا ہو ابھی ہو
اس کے لیے تو میں نے یہاں تک دُعائیں کیں
میری طرح سے کوئی اسے چاہتا بھی ہو
تو مجھ سے تیز چلے گا تو راستہ دوں گا
دُعا کے پھول تری راہ میں بچھا دوں گا
ابھی تو زندگی حائل ہے تجھ سے ملنے میں
میں آج رات یہ دیوار بھی گرا دُوں گا
اب ا سکے بعد کوئی بے وفا نہ پاؤ گے
میں اپنے آپ کو اتنی بڑی سزا دوں گا
بہت عجیب سی لڑکی ہے اس کی خاطر میں
پڑھے بغیر حسینوں کے خط جلا دوں گا
وحشی اُسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے
انسان کی لازوال محبت غزل سے ہے
ہم اپنی ساری چاہتیں قربان کر چکے
اب کیا بتائیں، کتنی محبت غزل سے ہے
لفظوں کے میل جول سے کیا قربتیں بڑھیں
لہجوں میں نرم نر م شرافت، غزل سے ہے
اظہار کے نئے نئے اسلوب دے دیئے
تحریر و گفتگو میں نفاست غزل سے ہے
یہ سادگی ، یہ نغمگی، دل کی زبان میں
وابستہ فکر و فن کی زیارت غزل سے ہے
شعروں میں صوفیوں کی طریقت کا نور ہے
اُردو زباں میں اتنی طہارت غزل سے ہے
اللہ نے نواز دیا ہے تو خوش رہو
تم کیا سمجھ رہے ہو، یہ شہرت غزل سے ہے
یہ اگر انتظام ہے ساقی
پھر ہمارا سلام ہے ساقی
آج تو اذن عام ہےساقی
رات رندوں کے نام ہے ساقی
میرے ساغر میں رات اُتری ہے
چاند تاروں کا جام ہے ساقی
ایک آئے گا،ایک جائے گا
مے کدے کا نظام ہے ساقی