جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے
یادوں کے دریچوں میں چلمن سی سرکتی ہے
Printable View
جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے
یادوں کے دریچوں میں چلمن سی سرکتی ہے
یُوں پیار نہیں چھپتا ، پلکوں کے جھکانے سے
آنکھوں کے لفافوں میں تحریر چمکتی ہے
خوش رنگ پرندوں کے لوٹ آنے کے دن آئے
بچھڑے ہوئے ملتے ہیں جب برف پگھلتی ہے
لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے
یوں یاد تری شب بھر سینے میں سُلگتی ہے
شہرت کی بُلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو، وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
غلامی کو برکت سمجھنے لگیں
اسیروں کو ایسی رہائی نہ دے
مجھے ایسی جنت نہیں چاہئے
جہاں سے مدینہ دکھائی نہ دے
زمانہ کچھ نہیں بدلا،محبت اب بھی باقی ہے
محبت زندگی کے باغ میں پھولوں کی ٹہنی ہے
محبت کے ارادے معجزوں سے کم نہیں ہوتے
سمندر پار کرنے کے لئے کاغذ کی کشتی ہے
کبھی سو چا خُدا کے سامنے اک روز جانا ہے
ترا مذہب غزل ہے اور غزل میں بت پرستی ہے
کبھی بولو تو شہروں کے مکاں بھی بات کرتے ہیں
تمہارے ذہن میں تو صرف قصبے کی حویلی ہے
اگر بیٹی کی شادی ہو تو پھر کوئی نہیں دشمن
مری بستی کی یہ مخلص کہاوت اب بھی سچی ہے
ترے سورج نکلنے سے مراموسم نہیں بدلا
وہی گہری اُداسی تھی،وہی گہری اُداسی ہے
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے
دیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ہو گیا
محلوں میں ہم نے کتنے ستارے سجا دیئے
لیکن زمیں سے چاند بہت دور ہو گیا
تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی اَنا!
آئینہ بات کرنے پہ مجبور ہو گیا
اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا
جس کو گلے لگا لیا، وہ دور ہو گیا
دادی سے کہنا اس کی کہانی سنائے وہ
جو بادشاہ عشق میں مزدور ہو گیا
صبح وصال پوچھ رہی ہے عجب سوال
وہ پاس آگیا کہ بہت دُور ہو گیا
کچھ پھل ضرور آئیں گے روٹی کے پیڑ میں
جس دن مرا مطالبہ منظور ہو گیا
فلک سے چاند ، ستاروں سے جام لینا ہے
مجھے سحر سے نئی ایک شام لینا ہے
کسے خبر کہ فرشتے غزل سمجھتے ہیں
خُدا کے سامنے کافر کا نام لینا ہے
معاملہ ہے ترا بد ترین دُشمن سے
مرے عزیز محبت سے کام لینا ہے
مہکتی زُلف سے خوشبو ،چمکتی آنکھ سے دھُوپ
شبوں سے جام ، سحر کا سلام لینا ہے
تمہاری چال کی آہستگی کے لہجے میں
سخن سے دل کو مسلنے کا کام لینا ہے
نہیں میں میر کے در پر کبھی نہیں جاتا
مجھے خُدا سے غزل کا کلام لینا ہے
بڑے سلیقے سے نوٹوں میں اُس کو تلوا کر
امیرِ شہر سے اب انتقام لینا ہے
یہ غزل کِس کی ہے اس مطلع کو پڑھ کر دیکھو
چاند کی چودھویں تاریخ ہے ، اوپر دیکھو
آج کمرے میں نہیں بیٹھنے والا موسم
برف کھڑکی سے نہیں ،گھر سے نکل کر دیکھو
رات سوئی ہوئی رعنائیوں نے مجھ سے کہا
ہم کو ہاتھوں سے نہیں، آنکھوں سے چھُو کر دیکھو
چاند کی زلفیں ہیں، چہرہ ہے، قد و قامت ہے
آسمانوں سے حویلی میں اُتر کر دیکھو
ہم غریبوں سے کبھی ٹوٹ کے ملنے آؤ
کیا بکھر نے میں مزا ہے یہ بکھر کر دیکھو
آنکھوں میں رہا، دل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھُول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مر ا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی مُحبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھُولوں میں چھُپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا