زندگی کے درد بوڑھا کر گئے
اور بڑھاپے میں جوانی کیا کروں
Printable View
زندگی کے درد بوڑھا کر گئے
اور بڑھاپے میں جوانی کیا کروں
تشنگی میری بجھا سکتا نہیں
اے سمندر اتنا پانی کیا کروں
کوئی بھی رد عمل مفقود ہے
اتنی ساری رائیگانی کیا کروں
میں تیرے جذبوں کی شدت کا بیاں
صرف قاصد کی زبانی کیا کروں
تو نے کس جا پہ اتارا ہے ابھی
کس قدر دور کنارا ہے ابھی
اپنی تقدیر بدل سکتا ہوں
میری مٹھی میں ستارا ہے ابھی
زندگی کہتی ہے کچھ دیر ٹھہر
لیکن اس کا تو اشارہ ہے، ابھی
تم ابھی پاس کھڑے ہو میرے
مجھ کو ہر شخص گوارا ہے ابھی
ہم اسے سونپ چکے ہیں سب کچھ
اور وہ کہتا ہے خسارہ ہے ابھی
وصل کچھ دیر ٹھہر جانے دے
دل تیرے ہجر کا مارا ہے ابھی
دیکھ ٹلتی ہے مصیبت کیسے
میں نے مولا کو پکارا ہے ابھی
جانے کب آن گرے
زیر دیوار نہ جا
شان سے جاؤ تو ہے
یوں سرِ دار نہ جا
آ تیرا دکھ بانٹوں
شام بیمار نہ جا
کچھ نہ کچھ لڑ تو سہی
اس طرح ہار نہ جا
کچھ دلاسہ بھی تو دے
ہم کو یوں مار نہ جا
یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے
یہ محبتوں کا فتور ہے
ترا آسمان قریب تھا
مرا آسمان تو دور ہے
مجھے کہہ رہی تھی وہ عزم سے
مجھے تم کو پانا ضرور ہے
یہ میری شبیہ نہیں، سنو
یہ تو میری آنکھوں کا نور ہے
تیرے عشق کا تیری روح کا
میری وحشتوں میں ظہور ہے
اے دل رائیگاں اداس اداس
پھر رہے ہو کہاں اداس اداس
چاند اک عمر سے سفر میں ہے
آسماں آسماں اداس اداس
جب بھی دیکھا ہے جھانک کر دل میں
ہو گیا سب جہاں اداس اداس
زندگی کھیل ہے اداسی کا
ہم یہاں تم وہاں اداس اداس
پھرتے رہتے ہیں ہم محبت میں
مضمحل ناتواں اداس اداس
سوچتا ہوں کہ میرے سینے میں
جانے کیا ہے نہاں اداس اداس
کیا اداسی سوا نہیں کچھ بھی
اے میرے لا مکاں اداس اداس
یوں ہی بے سبّب نہ پھرا کرو، کوئ شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئ ہاتھ بھی نہ ملائے گا، جو گلے مِلو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئ موڑ ہیں، کوئ آئے گا کوئ جائے گا
تمھیں جس نے دل سے بھُلا دیا اسے بھُولنے کی دُعا کرو
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں، یہ محبّتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سُنا کرو، جو سُنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حسن ِ پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں، میرے ساتھ تم بھی چلا کرو
یہ خِزاں کی زَرد سی شام میں، جو اُداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسؤوں سے ہرا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا، کہ نظر کا کوئ اثر نہیں
اُسے اتنی گرمی ِ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
مُسافر کے رستے بدلتے رہے
مُقدر میں چلنا تھا چلتے رہے
سُنا ہے اُنہیں بھی ہوا لگ گئی
ہواؤں کے رُخ جو بدلتے رہے
مُحبت، عداوت ، وفا ، بے رُخی
کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے
کوئی پھُول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا
میرے پاؤں شعلوں میں جلتے رہے
وہ کیا تھا جسے ہم نے ٹھُکرا دیا
مگر عُمر بھر ہاتھ ملتے رہے