ماجدؔ کسی کے ہاتھ نہ آئے نہ آ سکے
کٹ کر پتنگ ڈور سے، منہ سے نکل کے بات
Printable View
ماجدؔ کسی کے ہاتھ نہ آئے نہ آ سکے
کٹ کر پتنگ ڈور سے، منہ سے نکل کے بات
ٹھہراؤ کہیں صورتِ سیماب نہ آئے
کیوں چَین تجھے اے دلِ بے تاب! نہ آئے
شکوہ جو سرِ اشک ہے لفظوں میں نہ ڈھالو
کائی کہ جو تہہ میں ہے، سرِ آب نہ آئے
کیا لفظ تھے ہم اور غلط العام ہوئے کیا
کوئی بھی لگانے جِنہیں اعراب نہ آئے
وہ غار نشیں ہم ہیں تصوّر میں بھی جن کے
بہروپ میں جگنو کے بھی مہتاب نہ آئے
رفعت جو ذرا سر کے جھکانے سے دلائیں
ماجد تمہی اب تک، وہی آداب نہ آئے
ثنائے شاہ کے اِیزاد کر کے باب نئے
نئی رُتوں میں مرتّب ہوئے نصاب نئے
ہوئی ہے خَیر سے جِن مدّتوں سے، حرف بہ دوش
ہوا کے پاس ہیں کیا کیا نہ اضطراب نئے
دعائے فصل کچھ اِس طرح سے پڑی اُلٹی
بہ کشتِ جان ہیں اُگنے لگے عذاب نئے
اِسی کے دم سے، جو سادہ دلی بہم تھی ہمیں
دل و نظر میں اُبھرنے لگے ہیں خواب نئے