وحشت اُسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا
پاگل کو جیسے چاند کا دیدار دیکھنا
Printable View
وحشت اُسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا
پاگل کو جیسے چاند کا دیدار دیکھنا
اس ہجرتی کو کام ہوا ہے کہ رات دن
بس وہ چراغ اور وہ دیوار دیکھنا
پاؤں میں گھومتی ہے زمیں آسماں تلک
اس طفلِ شیر خوار کی رفتار دیکھنا
یا رب کوئی ستارۂ امّید پھر طلوع
کیا ہو گئے زمین کے آثار دیکھنا
لگتا ہے جیسے کوئی ولی ہے ظہور میں
اب شام کو کہیں کوئی مے خوار دیکھنا
اس وحشتی کا حال عجب ہے کہ اس طرف
جانا بھی اور جانبِ پندار دیکھنا
دیکھا تھا خواب شاعرِ مومن نے اس لیے
تعبیر میں ملا ہمیں تلوار دیکھنا
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا
میں نے سنا ہے قربِ قیامت کا ہے نشاں
بے قامتی پہ جُبّہ و دستار دیکھنا
صدیاں گزر رہی ہیں مگر روشنی وہی
یہ سر ہے یا چراغ سرِ دار دیکھنا
اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن
اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا
دو چار کے سوا یہاں لکھتا غزل ہے کون
یہ کون ہیں یہ کس کے طرفدار دیکھنا
باعثِ ننگ نہیں صرفِ غمِ جاں ہونا
میری قیمت ہے ترے شہر میں ارزاں ہونا
یہ اندھیرے تو سمٹ جائیں گے اک دن اے دوست
یاد آئے گا تجھے مجھ سے گریزاں ہونا
تم مجھے دیکھ کے اس درجہ پریشاں مت ہو
میرے جی کا تو بہلنا ہے پریشاں ہونا
کیسے جیتے ہیں جنھیں طاقتِ اظہار نہیں
اپنے تو درد کا درماں ہے غزل خواں ہونا
مہرباں لوگ مرا نام جو چاہے رکھ لیں
ان کے منہ سے تو مجھے ننگ ہے انساں ہونا
نہ رہا شکوۂ بے مہریِ ایّام کہ اب
اپنی حالت پہ مجھے آ گیا حیراں ہونا
کوئی بتلائے یہ تکمیلِ وفا ہے کہ نہیں
اشک بن کر کسی مژگاں پہ نمایاں ہونا
اُس نے پوچھا ہے بڑے پیار سے کیسے ہو علیمؔ
اے غمِ عشق! ذرا اور فروزاں ہونا
مٹّی تھا میں خمیر ترے ناز سے اٹھا
پھر ہفت آسماں مری پرواز سے اٹھا
انسان ہو، کسی بھی صدی کا، کہیں کا ہو
یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا
صبحِ چمن میں ایک یہی آفتاب تھا
اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا
سو کرتَبوں سے لکّھا گیا ایک ایک لفظ
لیکن یہ جب اٹھا کسی اعجاز سے اٹھا
اے شہسوارِ حُسن! یہ دل ہے یہ میرا دل
یہ تیری سر زمیں ہے ، قدم ناز سے اٹھا!
میں پوچھ لوں کہ کیا ہے مرا جبر و اختیار
یا رب! یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا
وہ ابر شبنمی تھا کہ نہلا گیا وجود
میں خواب دیکھتا ہوا الفاظ سے اٹھا
شاعر کی آنکھ کا وہ ستارہ ہوا علیم
قامت میں جو قیامتی انداز سے اٹھا
وہ زمین غالب کی لکھوں جس میں ہے تکرار دوست
میں بھی کھینچوں قامت جاناں یہ ہے اسرار دوست
دیکھ کر قد قیامت سوچ کر زلفیں دراز
اپنی ہی رفتار کے نشے میں ہے رفتار دوست
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست
وہ زمین غالب کی لکھوں جس میں ہے تکرار دوست
میں بھی کھینچوں قامت جاناں یہ ہے اسرار دوست
دیکھ کر قد قیامت سوچ کر زلفیں دراز
اپنی ہی رفتار کے نشے میں ہے رفتار دوست
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست
جیسے ہم آغوشیِ جاں کے زمانے ہوں قریب
ان دنوں ایسے نظر آتے ہیں کچھ آثار دوست
اک محبت سے محبت ہی جنم لیتی رہی
ہم نے اس کو یار جانا جس کو دیکھا یار دوست
روح و تن نے ہر نفس اک آنکھ چاہی تب کھلا
دیکھنا آساں ہے مشکل ہے بہت دیدار دوست
سب سخن کے جام بھرتے ہیں اسی سرکار سے
جس پہ اب جتنا کھلے میخانۂ گفتار دوست