یار ہما را ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا
بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کر و
Printable View
یار ہما را ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا
بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کر و
منزل شوق گریزاں ہے گریزاں ہی سہی
راہ گم گشتہ مسافر کا سفر تو دیکھو
جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو کرنا ہیں
دنیا کس کے ساتھ آئی ہے ، دنیا تو دیوانی ہے
ہو دیدۂ ہنر دلِ درد آشنا کی خیر!
کب لذّتِ خیال میں دریا نہیں ہوں میں
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وُجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے
کھینچے ہے مری طبعِ سخن اپنی ہی جانب
اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں اور
تھا دکھ اپنی پیدائش کا
جو لذت میں انزال ہوا
تمہارے نام پہ جس آگ میں جلائے گئے
وہ آگ پھول ہے وہ کیمیا ہمارے لئے
دئیے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے
کوئی تقسیم نئی کر کے چلا جاتا ہے
جو بھی آتا ہے مرے گھر کی نگہبانی کو
اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے آئینہ اور میں
پہلے وہ تصویر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
رسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پر یہ ہوا کہ خود سے ندامت نہیں رہی
کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں
دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمت نہیں رہی
سلامت آئینے میں ایک چہرہ
شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے
جن کو دعویٰ تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے
اپنے معاملے میں حساب اسکا اور ہے
سو بار اے زباں سنبھل آپ کے لیے
زنگی ایک بار ملتی ہے
دوستو زندگی سے پیار کرو
خوب پایا ہے صلہ تیری پر ستاری کا
دیکھ اے صبح ِ طرب آج کہاں ہیں ہم لوگ
جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو کرنا ہپے
دنیا کس کے ساتھ آئی ہے دنیا تو دیوانی ہے
پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو
نور ہے نور ہی برسائے گی
ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے
تیری دنیا تو سنور جائے گی
جس کو دیکھو وہ دل شکستہ ہے
کون ہے اس جہاں کا آئینہ ساز
تم ہم سفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز
مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا
آنکھوں میں کچھ نہیں ہے بجز خاک ِ رہ گزر
سینے میں کچھ نہیں بجز نالہ و نوا
بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینا یہی
کہ اک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے گئے
ترک تعلق ایک قیامت پرسش ِ یاراں اور عذاب
کیا بتلائیں ہجر زدہ دل کیسے کیسے دکھتا ہے
نئی آنکھیں نئے ہیں خواب ہیں میرے
مجھے یہ بھی سزا کچھ کم نہیں ہے
کھنچی تھی جس سے حرف میں اک صورت ِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
لوگ اپنے دل کی بات ڈھونڈتے ہیں نغموں میں
صرف ایک بہانہ ہے ساز کا ترنم کا
اُسی کا نام محبت ہوا زمانے میں
وہ اک نشہ کہ سیکھا نہیں ہے جس نے اتار
لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاع ِ آوارہ ہوں آئینہ شبنم میں ہوں
خواب سرائے ذات میں زندہ ایک تو صورت ایسی ہے
جیسے کوئی دیوی بیٹھی ہو حجرۂ راز و نیاز میں چپ
تم چاہ میں جس کی مر رہے ہو
اس میں تو نہیں ہے چاہ لوٹ آؤ
دیکھا اُسے تو طبع رواں ہو گئی مری
وہ مسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
دیکھا ہے اُس کو خلوت و جلوت میں بار ہا
وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا
ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ
یا رب کوئی ستارۂ امّید پھر طلوع
کیا ہو گئے زمین کے آثار دیکھنا
کیسے جیتے ہیں جنھیں طاقتِ اظہار نہیں
اپنے تو درد کا درماں ہے غزل خواں ہونا
سو کرتَبوں سے لکّھا گیا ایک ایک لفظ
لیکن یہ جب اٹھا کسی اعجاز سے اٹھا
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست