کوئی تضاد کوئی اختلاف اس دوراں؟
غموں کو کُند کیا دل کو تیز دھار کیا
Printable View
کوئی تضاد کوئی اختلاف اس دوراں؟
غموں کو کُند کیا دل کو تیز دھار کیا
کہو جو لوگوں پہ احسان کرتے پھرتے ہو؟
خود اپنے دل کو سدا میں نے زیر بار کیا
بتاؤ دُکھ کی ریاضت میں کیا کیا تم نے ؟
اجل کو پھول کیا، زندگی کو خار کیا
دکھ ایسا دریا ہے جو
آنکھ کے رستے بہتا ہے
تنہائی کی بات نہ کر
سارا شہر ہی تنہا ہے
غم میرے دروازے پر
دھرنا مار کے بیٹھا ہے
ہم نے اپنا آپ سدا
اس کے کھوج میں پایا ہے
کالا درد وچھوڑے کا
دور دور تک پھیلا ہے
دل کو دیکھ کے روتا ہوں
کتنا بھولا بھالا ہے
رونے والے بھول گئے
کون کہاں کھویا ہے
بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا
سوچا تو بچھڑنے کا سبب کچھ بھی نہیں تھا
اس بخت میں اب لاکھ زمانہ تجھے چاہے
ہم نے تو تجھے چاہا، تُو جب کچھ بھی نہیں تھا
تو نے میری جاں جھانک کے دیکھا نہ تھا دل میں
چہرے پہ جو تھا وہ تو غضب کچھ بھی نہیں تھا
جو مجھ سے فقیروں کے دلوں میں تھا وہی تھا
لوگوں نے جسے پوجا وہ رب کچھ بھی نہیں تھا
فرحت جو کوئی بھی تھا کہاں سے تھا بس اس کا
اک عشق سوا نام و نسب کچھ بھی نہیں تھا
مدتوں بعد میرا سوگ منانے آئے
لوگ بھولا ہوا کچھ یاد دلانے آئے
بڑھ گیا دل کے جنازے میں ستاروں کا ہجوم
کتنے غم ایک تیرے غم کے بہانے آئے
رات اک اُجڑی ہوئی سوچ میرے پاس آئی
اور پھر اُجڑے ہوئے کتنے زمانے آئے
ایک اک کر کے حوادث بڑی ترتیب کے ساتھ
مرحلہ وار میرا ساتھ نِبھانے آئے
نقش پختہ تھا تیرے غم کا وگرنہ موسم
بارہا دل سے میرے اس کو مٹانے آئے
دن بھی نہ بیتا رات نہ بیتی
تیری ایک بھی بات نہ بیتی
ٹھہر گئی آ کر آنکھوں میں
تیرے بن برسات نہ بیتی
آنسو رکے نا ان نینوں سے
تاروں کی بارات نہ بیتی
جم سی گئی احساس کے اندر
جیون بیتا مات نہ بیتی
بیت گئے ان گنت زمانے
ایک تمہاری ذات نہ بیتی
پھر تیرا ذکر دل سنبھال گیا
ایک ہی پل میں سب ملال گیا
ہو لیے ہم بھی اس طرف جاناں
جس طرف بھی تیرا خیال گیا
آج پھر تیری یاد مانگی تھی
آج پھر وقت ہم کو ٹال گیا
تو دسمبر کی بات کرتا ہے
اور ہمارا تو سارا سال گیا
تیرا ہوتا تو پھٹ گیا ہوتا
میرا دل تھا جو غم کو پال گیا
کون تھا وہ کہاں سے آیا تھا
ہم کو کن چکروں میں ڈال گیا
بچھڑنے کے زمانے آ گئے ہیں
اسے کتنے بہانے آ گئے ہیں
اداسی میں گھرے رہتے تھے جب ہم
وہ سارے دن پرانے آ گئے ہیں
نہیں ہیں خوش گرا کر عرش سے بھی
زمیں سے بھی اٹھانے آ گئے ہیں
وہ ہم پر مسکرانے آ گئے ہیں
نیا اک غم لگانے آ گئے ہیں
کسی کی موت کے آثار دل میں
صف ماتم بچھانے آ گئے ہیں
بتا دو موسم گریہ کو فرحت
کہ ہم رونے رلانے آ گئے ہیں
کہاں دل قید سے چھوٹا ہوا ہے
ابھی تک شہر سے روٹھا ہوا ہے
ہمیں کیسے کہیں اس دل کو سچا
ہمارے سامنے جھوٹا ہوا ہے
کسی کا کچھ نہیں اپنا یہاں پر
یہ سب سامان ہی لوٹا ہوا ہے