ابھی تو اس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں
Printable View
ابھی تو اس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں
اور اب احساس ہوتا ہے تمہارے شہر میں آ کر
میں تنہا رات اور راتوں کی رانی چھوڑ آیا ہوں
اسی خاطر مرے چاروں طرف پھیلا ہے سناٹا
کہیں میں اپنے لفظوں کے معانی چھوڑ آیا ہوں
ندیم اس شہر کی گلیوں محلوں اور سڑکوں پر
میں اپنی زندگی شاید بنانی چھوڑ آیا ہوں
ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں
ملے دوبارہ اگر ایسی زندگی تو نہیں
اچانک آنا تمہارا اور اس قدر چاہت
کہیں یہ دوست مری آخری خوشی تو نہیں
تو کیوں نہ تجھ سے تری گفتگو ہی کی جائے
ترے علاوہ یہاں میرا کوئی بھی تو نہیں
ہم اہل عشق بڑے وضع دار ہوتے ہیں
ہماری آنکھ میں دیکھو کہیں نمی تو نہیں
فصیلیں چاٹنے والے مجھے بتائیں ندیم
کہیں زمین پہ یہ آخری صدی تو نہیں