ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
Printable View
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
وہ فصلِ گل ، وہ لبِ جوئبار یاد کرو
وہ اختلاط ، وہ قول و قرار یاد کرو
یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے
ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے
واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے
وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے
اے شمع! اُن پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر
جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے
وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک
جو حادثات تیری مروّت سے ٹل گئے
جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم
دونوں جہان فرطِ رقابت سے جل گئے
زُلفِ برہم سنبھال کر چلئے
راستہ دیکھ بھال کر چلئے
موسمِ گل ہے ، اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال کر چلئے
کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا
حرج کیا ہے سوال کر چلئے
یا دوپٹہ نہ لیجئے سر پر
یا دوپٹہ سنبھال کر چلئے
یار دوزخ میں ہیں مقیم عدم
خُلد سے انتقال کر چلئے
ظلمت کا پھول مَے کے اجالے میں آ گرا
ہستی کا راز میرے پیالے میں آ گرا
لَوٹی ہے عقل سوئے جنوں اس امنگ سے
جیسے گناہ گار شوالے میں آ گرا
ایسے گرا ہے آ کے خرابات میں عدم
جیسے چکور چاند کے ہالے میں آ گرا
جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
پھول دامن میں چند رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا
ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا
میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ
جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا
دل تھا، مسرتیں تھیں، جوانی تھی، شوق تھا
لیکن غمِ زمانہ ہر اک شئے کو کھا گیا
برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ
صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا
کچھ سوچ کر ہمارے گریباں کی وضع پر
عہدِ بہار جاتے ہوئے مسکرا گیا
دل کا ہجومِ غم سے عدم اب یہ حال ہے
دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا
ہاں ہم ہیں وہاں ربط و کشش سے کام چلتا ہے
سمجھنے اور سمجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
محبت ہو گئی ہے زندگی سے اتنی بے پایاں
کہ اب گھبرا کے مر جانے کی گنجائش بہت کم ہے
گل و غنچہ کو ہے ان سے عقیدت اس لئے گہری
تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
مطلب معاملات کا ، کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں
بس انتہا ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
نکلا تھا میکدے سے کہ اب گھر چلوں عدم
گھبرا کے سوئے میکدہ پھر آگیا ہوں میں
اب کے بھی چاند چہرہ دکھایا نہیں ہم نہیں بولتے
آپ نے اپنا وعدہ نبھایا نہیں ہم نہیں بولتے
وہ کہ پہلے پہل سرخ ہونٹوں پہ تھا مژدۂ عید سا
کوئی مژدہ پھر ایسا سنایا نہیں ہم نہیں بولتے
چاہتوں کا جو سندیس لیکر گیا آپ تک آپ نے
بام سے وہ کبوتر اڑایا نہیں ہم نہیں بولتے
وہ کہ مہکار جس کی بہ شدّت ہمیں بھی بلاتی کبھی
پھول انگناں میں ایسا کھلایا نہیں ہم نہیں بولتے
آپ ہی نے رازِ دل پوچھا نہیں
ہم نہ بتلا تے، نہیں، ایسا نہیں