دیکنا اہلِ جنوں ساعتِ شب آ پہنچی
اب کوئی نقش بدیوار نہ ہونے پائے
Printable View
دیکنا اہلِ جنوں ساعتِ شب آ پہنچی
اب کوئی نقش بدیوار نہ ہونے پائے
اب کے کھل جائیں خزانے نفسِ سوزاں کے
اب کے محرومی اظہار نہ ہونے پائے
یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صفِ اوّل میں
غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائے
یوں تو ہے جوہرِ گفتار بڑا وصف مگر
وجہ بیماری گفتار نہ ہونے پائے
دشت میں خونِ حسین ابنِ علی بہ جائے
بیعتِ حاکمِ کفّار نہ ہونے پائے
نئی نسل اس انداز سے نکلے سرِ رزم
کہ مورّخ کی گُنہ گار نہ ہونے پائے
میں تیرے راگ سے اس طرح بھرا ہوں جیسے
کوئی چھیڑے تو اک نغمہ عرفاں بن جاؤں
ذہن ہر وقت ستاروں میں رہا کرتا ہے
کیا عجب مین بھی کوئی کرمکِ حیراں بن جاؤں
رازِ بستہ کو نشاناتِ خفی میں پڑھ لوں
واقفِ صورتِ ارواحِ بزرگاں بن جاؤں
دیکھنا اوجِ محبّت کہ زمیں کے اُوپر
ایسے چلتا ہوں کہ چاہوں تو سُلیماں بن جاؤں
میرے ہاتھوں میں دھڑکتی ہے شب و روز کی نبض
وقت کو روک کے تاریخ کا عنواں بن جاؤں
غم کا دعویٰ ہے کہ اس عالمِ سرشاری میں
جس قدر چاک ہو، اُتنا ہی گریباں بن جاؤں
تجھ کو اس شدّتِ احساس سے چاہا ہے کہ اب
ایک ہی بات ہے گلشن کہ بیاباں بن جاؤں
تو کسی اور کی ہو کر بھی مرے دل میں رہے
میں اجڑ کر بھی ہم آہنگ ِ بہاراں بن جاؤں
بے نُور ہوں کہ شمعِ سرِ راہ گزر میں ہوں
بے رنگ ہوں کہ گردشِ خونِ جگر میں ہوں
اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں
بہرہ ہوں یوں کہ قصّۂ نا معتبر میں ہوں
ذرّے جوان ہو کے اُفق تک پہنچ گئے
میں اتنے ماہ و سال سے بطنِ گہر میں ہوں
مستقبلِ بعید کی آنکھوں کی روشنی
اوروں میں ہوں نہ ہوں مگر اپنی نظر میں ہوں
لاکھوں شہادتوں نے مجھے واسطے دیئے
میں شب گزیدہ پھر بھی تلاشِ سحر میں ہوں
سفّاک بچپنوں کا کھلونا بنا ہوا ہے
دنیا کی زد میں پنجۂ شمس و قمر میں ہوں
میں جنگلوں کی رات سے تو بچ آگیا
اب کیا کروں کہ وادیِ نوعِ بشر میں ہوں
جی چاہتا ہے مثلِ ضیا تجھ سے تجھ سے مِل سکوں
مجبور ہوں کہ محبسِ دیوار و در میں ہوں
میں ہم نشینِ خلوتِ شہنازِ لالہ رُخ
میں گرمئ پسینۂ اہلِ ہنر میں ہوں
خوابوں کے راہروو، مجھے پہچاننے کے بعد
آواز دو کہ اصل میں ہوں یا خبر میں ہوں
اتنی تو دور منزلِ وارفتگاں نہ تھی
کن راستوں پہ ہوں کہ ابھی تک سفر میں ہوں
کیسا حصار ہے جو مجھے چھوڑتا نہیں
میں کس طلسمِ ہوش رُبا کے اثر میں ہوں
زنداں میں ہوں کہ اپنے وطن کی فصیل میں
عزّت سے ہوں کہ جسم فروشوں کے گھر میں ہوں
یوں ہر گلی کنارہ کش و چشم پوش ہے
جیسے ہمارا گھر سے نکلنا گناہ ہو
منبر میں ایسا لحن ہے ایسا سرّوش ہے
جیسے ہمارا نامۂ رندی سیاہ ہو
ہوں دن گزر رہے ہیں کہ نہ فردا نہ دوش ہے
اے اعتبارِ وقت معّین نگاہ ہو
اب تک قتیلِ ناوکِ یاراں میں ہوش ہے
اے دوستوں کی مجلسِ شوری صلح ہو
"میری سنو جو دوشِ نصیحت نیوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو"
چمک سکے جو مری زیست کے اندھیرے میں
وہ اک چراغ کسی سمت سے اُبھر نہ سکا
یہاں تمھاری نظر سے بھی دیپ جل نہ سکے
یہاں تمھارا تبسم بھی کام کر نہ سکا
دل میں وہ درد نہاں ہے کہ بتائیں کس کو
ہاں اگر ہے تو کوئی محرمِ اَسرار سنے
خلوتِ ذہن کے ہر راز کی سرگوشی کو
یہ نہ ہو جائے کہ بازار کا بازار سنے
نرمیِ رمز و کنایہ کا تقاضا یہ ہے
پرتَوِ شاخ کہے، سایۂ دیوار سنے
ہونٹ ہلنے بھی نہ پائیں کہ معانی کھُل جائیں
لمحۂ شوق کہے، ساعتِ دیدار سنے
میں تو سو مرتبہ تیشے کی زباں سے کہہ دوں
تُو جو افسانۂ فرہاد بس اِک بار سنے
پھر آج یاس کی تاریکیوں میں ڈوب گئی !
وہ اک نوا جو ستاروں کو چُوم سکتی تھی
سکوت ِ شب کے تسلسل میں کھو گئی چپ چاپ
جو یاد وقت کے محور پہ گھوم سکتی تھی