رات اندھیری ہے بہت چاند جلایا جائے
کرۂ ارض پہ اب نیند اتر آئی ہے
Printable View
رات اندھیری ہے بہت چاند جلایا جائے
کرۂ ارض پہ اب نیند اتر آئی ہے
اِن پرندوں سے کہو شور مچایا جائے
سرد پانی میں نہیں ریت پہ مر جاؤں گا
اس سے کیا ہوگا اگر مجھ کو بچایا جائے
اب پرندوں کی نہیں پیڑ کی سازش ہے ندیم
تجھ سے کوئی گلہ نہیں اے دوست
فیصلہ اس پہ میں نے چھوڑ دیا
جس طرف اس نے راستہ موڑا
خود کو اس سمت میں نے موڑ دیا
اب مرے ہونٹ بھی ہیں پتھر کے
جس کو چوما اسی کو توڑ دیا
اُدھر کنارِ لب و چشم ہیں عتاب وہی
سخن کی شاخ پہ رقصاں اِدھر گلاب وہی
وہی ہے جبرِ زماں، خود فریبیاں بھی وہی
سفید بال ہمارے وہی، خضاب وہی
ردائے ابر کو جو کشتِ بے گیاہ سے ہے
یہاں سروں سے ہے چھایا کو اجتناب وہی
فرازِ عرش سے نسبت رہی جسے ماجد
دل و نظر پہ اُترنے لگی کتاب وہی