محبت، ہجر نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں
Printable View
محبت، ہجر نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں
میں جہاں پر تھا وہیں پر ہوں مگر جانے کیوں
روز اک دھول سی اڑتی ہے ترے خواب کے ساتھ
اپنی تصویر لگا دی ہے ترے خواب کے ساتھ
میں نے یوں عمر گزاری ہے ترے خواب کے ساتھ
شبنمی رات کی سوغات بھی اشکوں کی طرح
نوکِ مژگاں پہ سجالی ہے ترے خواب کے ساتھ
کیا خبر اب یہ سفر پاس ترے لے جائے
رات اک چڑیا سی اتری ہے ترے خواب کے ساتھ
ایسا لگتا ہے میں اب نیند میں بھی روتا ہوں
آج اک جھیل سی دیکھی ہے ترے خواب کے ساتھ
زبان دے کے عجب بے زبانی دیتا ہے
کوئی تو ہے جو مجھے رائیگانی دیتا ہے
یہ ریگزار ضروری نہیں سبھی کو ملیں
میاں یہ عشق ہے تازہ کہانی دیتا ہے
وہ سوکھی ٹہنیوں کو کاٹتا ہے پہلے پھر
مری جڑوں میں محبت کا پانی دیتا ہے
بنا تو لی ہے محبت کی سلطنت میں نے
نہ جانے کس کو خدا حکمرانی دیتا ہے