دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
Printable View
دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپتے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عنوان یہاں بھی اندھے ہیں
زر دار توقّع رکھتا ہے نادار کی گاڑھی محنت پہ
مزدور یہاں بھی دیوانے ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں
کچھ لوگ بھروسہ کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں انسان یہاں بھی اندھے ہیں
بے نام جفا کی راہوں پر کچھ خاک سی اڑتی دیکھی ہے
حیران ہیں دلوں کے آئینے نادان یہاں بھی اندھے ہیں
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصوّر بھوکا ہے سلطان یہاں بھی اندھے ہیں
میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست
سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست
مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست
دوچار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
دوچار دن کے پیار کا قائل نہیں ہُوں دوست
جس کی جھلک سے ماند ہو اشکوں کی آبرُو
اس موتیوں کے ہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
لایا ہُوں بے حساب گناہوں کی ایک فرد
محبوب ہُوں شمار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ساغر بقدرِ ظرف لُٹاتا ہُوں نقدِ ہوش
ساقی سے میں اُدھار کا قائل نہیں ہوں دوست
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو انکا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند
ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چبھا، عید کا چاند
جانے کیوں آپ کے رخسار مہک اٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا، "عید کا چاند"
دور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند
لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے
آج بھی خلد کی رنگین فضا، عید کا چاند
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
چشم تو وسعت افلاک میں کھوئی ساغر
دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند
راہزن آدمی راہنما آدمی
با رہا بن چکا ہے خدا آدمی
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے
دو قدم جھوم کر جب چلا آدمی
زندگی خانقاہ شہود و بقا
اور لوح مزار فنا آدمی
صبح دم چاند کی رخصتی کا سماں
جس طرح بحر میں ڈوبتا آدمی
کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے
سہہ گیا آدمی کی جفا آدمی
گونجتی ہی رہے گی فلک در فلک
ہے مشیت کی ایسی صدا آدمی
اس کی مورتیں پوجتے پوجتے
ایک تصویر سی بن گیا آدمی
مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے
مری آہِ پر اثر نے کئی آفتاب ڈھالے
مجھے گردشِ فلک سے نہیں احتجاج کوئی
کہ متاعِ جان و دل ہے تری زلف کے حوالے
یہ سماں بھی ہم نے دیکھا سرِ خاک رُل رہے ہیں
گل و انگبیں کے مالک مہ و کہکشاں کے پالے
مری آنکھ نے سنی ہے کئی زمزموں کی آہٹ
نہیںبربطوں سے کمتر مئے ناب کے پیالے
ابھی رنگ آنسوؤں میں ہے تری عقیدتوں کا
ابھی دل میں بس رہے ہیں تری یاد کے شوالے