گھٹن اور حبس میں کچھ دم ابھی محفوظ ہیں
یہ ہے احسان اس کا ہم ابھی محفوظ ہیں
Printable View
گھٹن اور حبس میں کچھ دم ابھی محفوظ ہیں
یہ ہے احسان اس کا ہم ابھی محفوظ ہیں
ہمارے ہاتھ گرچہ کٹ چکے ہیں جنگ میں
تمہارے عشق کے پرچم ابھی محفوظ ہیں
اگرچہ آنکھ کا سورج سوا نیزے پہ ہے
تمہاری یاد کے موسم ابھی محفوظ ہیں
ہماری ڈائری پڑھنا کبھی تم غور سے
کہانی کے لیے یہ غم ابھی محفوظ ہیں
محبت لازمی ہے مانتا ہوں
مگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
ندیم اس نے نہیں بدلا ہے غم کا پیراہن
تو پھر یوں ہے کہ کچھ ماتم ابھی محفوظ ہیں
تمہارا ہجر کاندھے پر رکھا ہے
نہ جانے کس جگہ میں جا رہا ہوں
مری پہلی کمائی ہے محبت
محبت جو تمہیں میں دے چکا ہوں
مرے چاروں طرف اک شور سا ہے
مگر پھر بھی یہاں تنہا کھڑا ہوں
کوئی تو ہو جو میرے درد بانٹے
مسلسل ہجر کا مارا ہوا ہوں