چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا
Printable View
چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا
یہ گہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا
شکر ہے اس نے بے وفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا
بدلے میں پیار کے مجھے رسوائی دے گیا
صدمات کے ہجوم میں تنہائی دے گیا
اٹھتا ہے دل میں شور سا آٹھوں پہر مرے
زخموں کو کیسی قوتِ گویائی دے گیا
غم، درد، کرب، آہ، فغاں، اشک ، بے کلی
کیا کیا عنایتیں مجھے ہر جائی دے گیا
مجھ کو دیا تھا درسِ وفا جس نے پیار سے
آنکھوں کو انتظار کی انگنائی دے گیا
ارماں جگا کے اور نئے وعدے پہ ٹال کے
لمسِ لطیف دے گیا، انگڑائی دے گیا
آنکھوں سے میری نیند کی دنیا چرا کے وہ
اطیبؔ شکستِ خواب کی سچائی دے گیا
گماں کے تن پہ یقیں کا لباس رہنے دو
کہ میرے ہاتھ میں خالی گلاس رہنے دو
زمانہ گزرا ہے خوشیوں کا ساتھ چھوڑے ہوئے
مرے مزاج کو اب غم شناس رہنے دو
عمل کی رُت میں پنپتی ہیں ٹہنیاں حق کی
مِلاؤ سچ سے نگاہیں، قیاس رہنے دو
وہ راگ خاموش ہو چکا ہے سنانے والا بھی سو چکا ہے
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو
وہ خواب کو بھی حقیقت سمجھ کے جیتے ہیں
اسی میں خوش ہیں تو یہ التباس رہنے دو
ملا کے ہاتھ شیاطیں سے دیکھتے ہو مجھے
انانیت کو تم اپنے ہی پاس رہنے دو
مجھے نہ کھینچو خوشی کے حصار میں اطیبؔ
اداس رہنا ہے مجھ کو اداس رہنے دو
کیسے کر پاؤ گے برباد بیابانوں کو
اِن سے ملتا ہے سکوں قیس سے دیوانوں کو
جتنا تڑپاتے ہو ترساتے ہو دیوانوں کو
زندگی اور ملی جاتی ہے مستانوں کو
نقلی پھولوں سے سجا رکھا ہے گلدانوں کو
پھر سے آباد کرے کوئی گلستانوں کو
اِن سے وابستہ روایت ہے جنوں کی اطیبؔ
رکھو آباد تصور کے صنم خانوں کو
جانِ جاں آج یہ غضب ہو گا
خواب آنکھوں میں جاں بہ لب ہو گا
سینہ سینہ ادب ادب ہوگا
میرے مولا یہ کام کب ہو گا
بے زبانی ہی اب زباں ہو گی
مجھ سے شکوہ گلہ نہ اب ہو گا
غیر کے ذکر پر مچے گی دھوم
اور مرا نام زیرِ لب ہو گا
یوں سرِ راہ روٹھنا ان کا
میری رسوائی کا سبب ہو گا
سر نگوں ہو گی آرزو اطیبؔ
یہ کرشمہ بھی دیکھ اب ہوگا
کبھی مئے خانے بگڑتے نہیں دیوانوں سے
اس سے کہ دو کہ نہ کھیلا کریں پیمانوں سے
زور دے اپنی بصارت پہ کہ تحریر کھُلے
اس کا چہرہ ہے مزّین کئی عنوانوں سے
حق کی آواز سماعت سے مری ٹکرانے
لوٹ آئے گی روایات کے زندانوں سے
مدتوں بعد تری یاد میں آنکھیں بھیگیں
آج ساحل نے ملاقات کی طوفانوں سے
کوئی ہتھیار نہیں باعثِ آزار اطیبؔ
ایک انسان کو خطرہ ہے تو انسانوں سے
سجائے رکھا ہے ایسا سراب آنکھوں میں
بکھیر تا ہے جو وہ خواب خواب آنکھوں میں
اُلجھ رہا ہے جو منظر بصارتوں سے مری
مزاجِ وقت کے رُخ کا نقاب آنکھوں میں
خزاں کے دور میں کانٹوں کی حکمرانی ہے
کھٹک رہا ہے جو کھلتا گلاب آنکھوں میں
محبتوں کا مری کیا ثبوت دوں تم کو
تمہارے واسطے لا یا ہوں آب آنکھوں میں
مقام اس سے حسیں اور کیا ہو میرے لئے
پناہ دیجئے مجھ کو جناب آنکھوں میں
آ جا کہ انتظار ِ نظر ہیں کبھی سے ہم
مایوس ہو نہ جائیں کہیں زندگی سے ہم
اے عکسِ زلفِ یار ہمیں تو پناہ دے
گھبرا کے آ گئے ہیں بڑی روشنی سے ہم
برسوں رہی ہے جن سے رہ و رسمِ دوستی
انکی نظر میں آج ہوئے اجنبی سے ہم
اس رونق ِ بہار کی محفل میں بیٹھ کر
کھاتے رہے فریب بڑی سادگی سے ہم