چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
Printable View
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
بجا لاتے اسے آنکھوں سے اے دوست
کبھی کچھ ہم سے فرمایا تو ہوتا
قامتِ موزوں تصوّر میں قیامت ہو گیا
چشم کی گردش نے کارِ فتنۂ دوراں کیا
کس طرح سے میں دلِ وحشی کا کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا
پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا
خراب قصر ِ تن کا ہمارے ستوں کیا
جامے سے جسم کے بھی میں دیوانہ تنگ ہوں
اب کی بہار میں اسے نذر ِ جنوں کیا
فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا
شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا
جوہر وہ کون سا ہے جو انسان میں نہیں
دے کر خدا نے عقل اسے، ذوفنوں کیا
آنکھوں سے جائے اشک ٹپکنے لگا لہو
آتش جگر کو دل کی مصیبت نے خوں کیا
وحشت ِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورت ِ انساں پیدا
دل کے آئینے میں کر جوہر ِ پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورت ِ جاناں پیدا
باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ ِ خوش الحاں پیدا
اب قدم سے ہے مرے خانہ ِ زنجیر آباد
مجھ کو وحدت نے کیا سلسلہ جنباں پیدا
روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسم ِ خاک سمجھ اس کو جو ہو زنداں پیدا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم ِ عدم
دیکھتا ہوں جسے، ہوتا ہے وہ عریاں پیدا
موجد اس کی ہے یہ روزی ہماری آتش
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شب ِ ہجراں پیدا
روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطرہ ِ شبنم پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
دوست ہی دشمن ِ جاں ہو گیا اپنا آتش
نوش وارو نے کیا یا اثر ِ سم پیدا
شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سمر تک مرد مشتری کا قرآن تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمین پر سے اک نور تا آسمان تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا
بیان خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ
میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ
روشنی آدھی اِدھر، آدھی اُدھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ
میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانے تھے نظاروں کے بیچ
ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ
کھا گیا انساں کو آشوبِ معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ
میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ
اپنی ویرانی کے گوہر رولتا
رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ
کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ
آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ
اک محمد مصطفے ٰ ساروں کے بیچ
اہلِ دل کے درمیاں تھے میرؔ تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ