تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی
Printable View
تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی
رسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پر یہ ہوا کہ خود سے ندامت نہیں رہی
روپ موسم ِ گل اور خزاں نے دھارے ہیں
ایک میری آہوں کا اک ترے تبسم کا
نشاط ِ رنج ہو رنج ِ نشاط ہو کچھ ہو
حیات رقص ہے وحشت کا اور دائرہ وار
چاہا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ہیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں ہوں
اُس لمحے تو گردش ِ خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمیں اٹھائے اک رقص پیہم میں ہوں
جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں آنکھوں میں زندہ ہیں
جواب تک نہیں لکھ پایا میں اُن خوابوں کے غم میں ہوں
اول اول بول رہے تھے خواب بھری حیرانی میں
پھر ہم دونوں چلے گئے پاتال سے گہرے راز میں چپ
میری نہیں گر تو اپنی خاطر
لوٹ آؤ دل و نگاہ لوٹ آؤ
وہ روشنی کہ آنکھ اُٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا
حرفِ دعا و دستِ سخاوت کے باب میں
خود میرا تجربہ ہے وہ بے حد نجیب تھا
لکّھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیمؔ
اُس کو دِکھا نہ پاؤ وہ ایسا حبیب تھا
پاؤں میں گھومتی ہے زمیں آسماں تلک
اس طفلِ شیر خوار کی رفتار دیکھنا
تم مجھے دیکھ کے اس درجہ پریشاں مت ہو
میرے جی کا تو بہلنا ہے پریشاں ہونا
صبحِ چمن میں ایک یہی آفتاب تھا
اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
بستر پر مو جو د رہے اور سیر ہفت افلاک
ایسی کسی پر رحمت کی بر سات نہیں دیکھی
دل پہ کھلتا ہے اسی موسِم میں
غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب
کاش تعبیر میں تم ہی نکلو
جب کوئی خواب ہو تعبیر طلب
زمیں کے لوگ تو کیا، دو دلوں کی چاہت میں
خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤ نہیں
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
جتنا بھی قریب جاؤ گے تم
انساں کو عجب عجب لکھو گے
صدیوں میں وہ لفظ ہے تمھارا
اک لفظ جو اپنا اب لکھو گے
لکھتے ہیں پر یہ نہیں جانتے لکھنے والے
نغمہ اندو ہ سماعت ہے اثر ہو نے تک
وہ مجھے بھول گیا ہے شاید
یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے
ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے
لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاعِ آوارہ ہوں آئینۂ شبنم میں ہوں
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے
اتنے شّفاف کہ تھے روح و بدن آئینہ
اصل کے اصل میں دیکھے تھے نظارے ہم نے
وہ آخری آدمی خُدا کا
سب لفظ و بیاں بدل گیا ہے
اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا حیرتوں کی حیرت ہے
چڑھا ہوا تھا وہ نشہ کے کم نہ ہوتا تھا
ہزار بار ابھرتا تھا ڈوبتا تھا میں
آگے کیا ہو یہ سخن آج تو یوں ہے جیسے
اپنے نام اپنا ہی لکھا ہوا مکتوب آئے
پھول تو سہم گئے دست کرم سے دمِ صبح
گنگناتی ہوئی آوارہ صبا کیوں چپ ہے
آنکھ مظلوم کی خدا کی طرف
ظلم اک ظلمتِ کثیر کے ساتھ
بتلاؤ تو یہ آب و ہوا آئی کہاں سے
کہنے کو تو تم لہجہ و تاثیر ہوئے سب
دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری
وہ مُسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
جیسے تجدید تعلق کی بھی رُت ہو کوئی
زخم بھرتے ہیں تو احباب بھی آ جاتے ہیں
سچ ہوں تو مجھے امر بنا دے
جھوٹا ہوں تو نقش سب مٹا دے
ہم تو جہاں والوں کی خاطر جان سے گزرے جاتے ہیں
پھر ستم کیا ہے کہ ہمیں پر تنگ ہوا ہے دہر بہت