پوچھتے کیا ہو کیوں لگائی دیر
اک نئے آدمی سے ملنا تھا
Printable View
پوچھتے کیا ہو کیوں لگائی دیر
اک نئے آدمی سے ملنا تھا
طریق خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں* تا حشر اُن کے آنے کا
جفائیں کرتے ہیں تھم تھم کے اس خیال سے وہ
گیا تو پھر یہ نہیں میرے ہاتھ آنے کا
دلوں* پر سیکڑوں سّکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں
جانتا ہوں کہ میری جان ہے تو
اور میں جان سے بیزار یہ کیا
نظر میں ہے تیری کبریائی، سما گئی تیری خود نمائی
اگر چہ دیکھی بہت خدائی ، مگر نہ تیرا جواب دیکھا
غیر کے روپ میں بھیجا ہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نیا بھیس بدل کر آیا
پھر دیکھتے ہیں عیش آدمی کا
بنتا جو فلک میر خوشی کا
آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا
آنکھیں کھلیہوئی پس مرگ اس لئے
جانے کوئی کہ طالب دیدار مرگیا