عجب سی بات ہے کہ ایک دنیا
میرے زیر اثر ہے، وہ نہیں ہے
Printable View
عجب سی بات ہے کہ ایک دنیا
میرے زیر اثر ہے، وہ نہیں ہے
میرے هاتھ سے تیرے هاتھ تک
وه جو هاتھ بھر کا تھا فاصله
کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے اسے کاٹتے
میرا سارا وقت نکل گیا
وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی مناظر دھواں دھواں سے
یہ عکس داغ شکست پیماں وہ رنگ زخم خلوص یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے؟؟
یہ سنگریزے عداوتوں کے وہ آبگینے سخاوتوں کے
دل مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے
بچھڑنے والا بچھڑ چلا تھا تو نسبتیں بھی گنوا کے جاتا
ترے لئے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھاؤں زباں زباں سے
میری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہو کے آیا وہاں وہاں سے
تو ہم نفس ہے نہ ہم سفر ہے کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے؟؟
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے
ابھی محبت کا اسم اعظم لبوں پہ رہنے دے جان محسن!
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے
خوشــبو کسی تشہیر کی محتاج نہیں ہوتی
سچا ہوں ــ مگر اپنی وکالت نہیں کرتا
sahi
ﮬﻢ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺧﺮﯾﺪﺗﮯ ﮐﯿﺴﮯ.......؟؟؟؟
ﮬﻤﺎﺭﯼ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﺳﮑﮯ ﺗﮭﮯ
میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اُجالا ہے
مُجھے کیا دبا سکے گا توظلمتوں کا پالاہے
مُجھے فکر امن عالم، تُجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں، تُو غروب ہونے والا ہے
گمنام دیاروں میں سفر کیوں نہیں کرتے
اجڑے ہوےّ لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے
یہ خواب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوئے خواب
یہ خواب مرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے
خواہش کے ، طمانیتِ احساس کے پنچھی
کچھ روز میرے گھر بسر کیوں نہیں کرتے
صبحوں سے ہیں مغلوب تو پھر زُعم ہے کیسا
راتوں پہ ہیں غالب تو سحر کیوں نہیں کرتے
یہ لوگ مسلسل ہیں جو اک خوف کے قیدی
اس خوف کی دیوار میں در کیوں نہیں کرتے
کیوں آپ اٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب
شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے
اناؤں،نفرتوں،خود غرضیوں کے ٹھہرے پانی میں
محبت گھولنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں
فقط باتیں اندھیروں کی ,محض قصّے اجالوں کے
چراغ آرزو لے کر نہ تم نکلے نہ ہم نکلے