اے روشنی کی لہر کبھی تو پلٹ کے آ
تجھ کو بلا رہا ہے دریچہ کھلا ہوا
Printable View
اے روشنی کی لہر کبھی تو پلٹ کے آ
تجھ کو بلا رہا ہے دریچہ کھلا ہوا
سیراب کس طرح ہو زمیں دور دور کی
ساحل نے ہے ندی کو مقیّد کیا ہوا
پہچانتے نہیں اسے محفل میں دوست بھی
چہرہ ہو جس کا گردِ الم سے اٹا ہوا
اے دوست چشمِ شوق نے دیکھا ہے بارہا
بجلی سے تیرا نام گھٹا پر لکھا ہوا
اس دور میں خلوص کا کیا کام اے شکیبؔ
کیوں کر چلے بساط پر مہرا پِٹا ہوا
کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی
ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے
کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی
کون جانے کہاں ہے شہرِ سکوں
قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جنوں
نورِ منزل مجھے نصیب کہاں
میں ابھی حلقۂ غبار میں ہوں
یہ ہے تاکید سننے والوں کی
واقعہ خوشگوار ہو تو کہوں
کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر
چاند تاروں پہ مار کر شب خوں
اب تو خونِ جگر بھی ختم ہوا
میں کہاں تک خلا میں رنگ بھروں
جی میں آتا ہے اے رہِ ظلمت
کہکشاں کو مروڑ کر رکھ دوں
کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے
بدل رہا ہے جنوں زاوئے اُڑانوں کے
یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا
شگاف پُر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے
چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام
پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے
ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں
مرے رفیق ہیں مُطرِب گئے زمانوں کے
کبھی ہمارے نقوشِ قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے
کبھی ہمارے نقوشِ قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
مصروف ہوں ابھی عملِ انعکاس میں
صحرا کی بود باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں
دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں
تارے ہیں نہ ماہتاب یارو
کچھ اس کا بھی سدِّ باب یارو
آنکھوں میں چتائیں جل رہی ہیں
ہونٹوں پہ ہے آب آب یارو
رہبر ہی نہیں ہے ساتھ اپنے
رہزن بھی ہے ہم رکاب یارو
شعلے سے جہاں لپک رہے ہیں
برسے گا وہیں سحاب یارو
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچا تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا
میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے
وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا
تمہیں بھی علم ہو اہل وفا پہ کیا گزری
تم اپنے خون جگر سے کبھی وضو تو کرو
نگار صبح گریزاں کی تابشوں کو کبھی
ہمارے خانہ ظلمت کے رو برو تو کرو
نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا نہ سہی
ہمارے دامن صد چاک کو رفو تو کرو
طلوع مہر درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو
اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رت بدلنے لگی
اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی
ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھتے
جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے
ہم نے فضول چھیڑ دی زخمِ نہاں کی بات
چپ چاپ رنگِ خندۂ احباب دیکھتے
غم کی بس ایک موج نے جن کو ڈبو دیا
اے کاش وہ بھی حلقۂ گرداب دیکھتے
کشکولِ شعرِ تر لیے پھرتے نہ ہم شکیبؔ
اس ریشمیں بدن پہ جو کمخواب دیکھتے