خاک کو دریا دل ہو کر جب سرمۂ چشم بنایا تھا
ماجدؔ جانے وہ لمحہ کیوں رہ رہ کر یاد آتا ہے
Printable View
خاک کو دریا دل ہو کر جب سرمۂ چشم بنایا تھا
ماجدؔ جانے وہ لمحہ کیوں رہ رہ کر یاد آتا ہے
کاوشِ انساں کا کیا، کی اور اکارت ہو گئی
امتدادِ وقت سے دھُندلی، عبارت ہو گئی
چلتی گاڑی سے جو ٹکرا کر گری وہ فاختہ
تھی تلاشِ رزق میں نکلی کہ غارت ہو گئی
زیر بار اُس کے ہوئے ایسے، نہ رُخ موڑا گیا
ہوتے ہوتے درد سے ایسی سفارت ہو گئی
رہبری کا اہل ٹھہرا ہے وہی اپنے یہاں
رہزنی کے باب میں جس کو مہارت ہو گئی
لمس اُس پارس کا سپنوں تک کو کندن کر گیا
اُس کے دم سے اپنی غربت بھی امارت ہو گئی
کھٹکا ہے یہ، کسی بھی پھسلتی چٹان پر
ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پر
جیسے ہرن کی ناف ہتھیلی پہ آ گئی
کیا نام تھا، سجا تھا کبھی، جو زبان پر
چاہے جو شکل بھی وہ، بناتا ہے اِن دنوں
لوہا تپا کے اور اُسے لا کے سان پر
اُس پر گمانِ مکر ہے اب یہ بھی ہو چلا
تھگلی نہ ٹانک دے وہ کہیں آسمان پر
یک بارگی بدن جو پروتا چلا گیا
ایسا بھی ایک تیر چڑھا تھا کمان پر
تاریخ میں نہ تھی وہی تحریر ، لازوال
جو خون رہ گیا تھا عَلَم پر، نشان پر
ماجدؔ ہلے شجر تو یقیں میں بدل گیا
جو وسوسہ تھا سیلِ رواں کی اٹھان پر
کیلنڈر کا ہر ہندسہ سمجھائے مجھے
اپنے تساہل پر کیوں شرم نہ آئے مجھے
تاج کسی لا وارث شہ کا، نگری میں
کون اُترتے دم ہی، بھلا پہنائے مجھے
درس نہیں ہوں، میں ہوں اکائی زینے کی
وقت کا بالک کاہے کو دُہرائے مجھے
میں کہ جسے اِک ایک تمنّا عاق کرے
کون سخی ہو ایسا، جو اپنائے مجھے
لُو کا بھبھوکا ماجدؔ ماں کا ہاتھ نہیں
بے دم ہوتا دیکھ کے جو سہلائے مجھے
گئے دنوں کے نئے ولولے تلاش کروں
کھنچے ہوؤں سے مراسم نئے تلاش کروں
جو حرفِ حق ہے اُسے، دلنشیں بنانے کو
کچھ اور سابقے اور لاحقے تلاش کروں
میں ربط دیکھ کے سورج مکھی سے سورج کا
برائے چشم نئے رتجگے تلاش کروں
وہ جن میں جھانک کے سنبھلیں مرے نواح کے لوگ
میں اُس طرح کے کہاں آئنے تلاش کروں
جو آنچ ہی سے مبّدل بہ آب ہوتے ہیں
میں گرم ریت میں وہ آبلے تلاش کروں
بھگو کے گال، سجا کر پلک پلک آنسو
’ اُداس دل کے لئے مشغلے تلاش کروں‘
بیاضِ درد کی تزئین کے لئے ماجدؔ
وہ حرف رہ گئے جو، اَن کہے تلاش کروں
نصابِ ربط کے نقش و نگار بھُول گئے
گلاب رکھ کے کتابوں میں یار، بھُول گئے
گھروں سے لے کے گھروں تک انا و نخوت کی
اُڑی وہ گرد کہ چہرے نکھار بھُول گئے
ہوائے تُند نے جھٹکے کچھ اس طرح کے دئیے
ہمارا کس پہ تھا کیا اختیار؟ بھُول گئے
جنہیں گماں تھا نمو اُن تلک بھی پہنچے گی
وہ کھیت مرحلۂ انتظار، بھُول گئے
نہ جان پائے کہ مچلے گا، پھُول چہروں میں
یہ ہم کہ خوئے دلِ نابکار، بھُول گئے
قدم کدھر کو ،ارادے کدھر کے تھے اُن کے
یہ بات رن میں سبھی شہسوار، بھُول گئے
فضائے تخت ثمر بار دیکھ کر ماجدؔ
جو روگ شہر کو تھے، شہریار، بھُول گئے
منظر کی تزئین میں ’مانی‘ جیسا ہے
ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے
آنکھ میں اُس کے لبوں کا وداعی سنّاٹا
ہاتھ میں مُندری کی سی نشانی جیسا ہے
رہبروں کے غبارے پھٹنے پر اپنا
عالم بّچوں کی حیرانی جیسا ہے
جس کی قبر کو ڈھانپنے تاج محل اُبھرے
وہ بے مثل ہے کون اُس رانی جیسا ہے
ہونٹ سِلے ہیں گویا بل بل ماتھے کا
تن میں ابلتا خوں طغیانی جیسا ہے
قّصہ اپنے ہاں کے سبھی منصوبوں کا
طوطے اور مَینا کی کہانی جیسا ہے
اُس چنچل کا قرب ہمیشہ کب حاصل
پل دو پل کا ساتھ جوانی جیسا ہے
اِس قطرے میں جانے الاؤ کیا کیا ہیں
آنکھ میں آنسو یوں تو پانی جیسا ہے