شیخی اتنی نہ کر اے شیخ کہ رندان جہاں
انگلیوں پر تجھے چاہیں تو نچا سکتے ہیں
Printable View
شیخی اتنی نہ کر اے شیخ کہ رندان جہاں
انگلیوں پر تجھے چاہیں تو نچا سکتے ہیں
درد یہ ہے ہاتھ اگر رکھا ادھر
واں سے تب سرکا ہاتھ دُکھنے لگا
مت کراہ انشا نہ کر افشائے راز
دل دُکھنے دے اگر دُکھنے لگا
وعدہ کرتا ہے غزالانِ حرم کے آگے
کس نے یہ بات سکھائی ترے سودائی کو
گرچہ ہیں آبلہ پا دشت جنوں کے اے خضر
تو بھی تیار ہیں ہم مرحلہ پیمائی کو
اک بگولا جو پھرا ناقہ لیلی کے گرد
یاد کر رونے لگی اپنے وہ صحرائی کو
مست جاروب کشی کرتے ہیں یاں پلکوں سے
کعبہ پہنچے ہے مے خانے کی ستھرائی کو
انشا کو لذت اس کی جوانی کی حسن کی
ہے زور طِفلگی کے بھی ایام سے لذیذ
آ جاوے پختگی پہ جو میوہ درخت کا
وہ کیوں نہ ہو بھلا ثمر خام سے لذیذ
نالے پہ میرے نالے کرنے لگی ہے اب تو
بلبل نے یہ نکالا نخرا نیا چمن میں