مجھ سا بے مایہ اپنوں کی اور تو کیا خاطر کرتا
جب بھی ستم کا پیکاں آیا، میں نے سینہ کھول دیا
Printable View
مجھ سا بے مایہ اپنوں کی اور تو کیا خاطر کرتا
جب بھی ستم کا پیکاں آیا، میں نے سینہ کھول دیا
بیتے لمحے دھیان میں آ کر مجھ سے سوالی ہوتے ہیں
تو نے کس بنجر مٹّی میں من کا امرت ڈول دیا
اشکوں کی اُجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
الفت کی میزان میں میں نے جو تھا سب کچھ تول دیا
برگِ دل کی طرح ہے زرد ہَوا
پھانکتی ہے کہاں کی گرد ہَوا
دل میں یادوں کا زہر گھول دیا
کتنی قاتل ہے بن کی سرد ہَوا
روز لاتی ہے ان کہے پیغام
شہرِ خوباں سے کوچہ گرد ہَوا
دَم نہ مارے مری طرح جو سہے
اس زمانے کے گرم و سرد ہَوا
میں ہوں شعلہ بجاں، چراغ بدست
کس خلا کی ہے رہ نورد ہَوا
تو جو اس راہ سے گزرا ہوتا
تیرا ملبوس بھی کالا ہوتا
میں گھٹا ہوں، نہ پَون ہوں، نہ چراغ
ہم نشیں میرا کوئی کیا ہوتا
زخم عریاں تو نہ دیکھے کوئی
میں نے کچھ بھیس ہی بدلا ہوتا
بن میں بھی ساتھ گئے ہیں سائے
میں کسی جا تو اکیلا ہوتا
مجھ سے شفّاف ہے سینہ کس کا
چاند اس جھیل میں اترا ہوتا
اور بھی ٹوٹ کے آتی تری یاد
میں جو کچھ دن تجھے بھولا ہوتا
راکھ کر دیتے جلا کر شعلے
یہ دھواں دل میں نہ پھیلا ہوتا
کچھ تو آتا مری باتوں کا جواب
یہ کنواں اور جو گہرا ہوتا
نہ بکھرتا جو فضا میں نغمہ
سینۂ نَے میں تڑپتا ہوتا
تھی مقدّر میں خزاں ہی تو شکیبؔ
میں کسی دشت میں مہکا ہوتا
منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے
بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ
یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کےساتھ
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ
لکھتی ہے آسماں پہ غزل آب زر کے ساتھ
دستکیں دیتی ہیں شب کو درِ دل پر یادیں
کچھ نہیں ہے مگر اس گھر کا مقدّر یادیں
اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ
ڈھونڈھتی ہیں تری مہکی ہوئی زلفوں کی بہار
چاندنی رات کے زینے سے اتر کر یادیں
عشرتِ رفتہ کو آواز دیا کرتی ہیں
ہر نئے لمحے کی دہلیز پہ جا کر یادیں
رنگ بھرتی ہیں خلاؤں میں ہیولے کیا کیا
پیش کرتی ہیں عجب خواب کا منظر یادیں
نہ کسی زلف کا عنبر، نہ گلوں کی خوشبو
کر گئی ہیں مری سانسوں کو معطّر یادیں
کم نہیں رات کے صحرا سے مرے دل کی فضا
اور آکاش کے تاروں سے فزوں تر یادیں
مشعلِ غم نہ بجھاؤ کہ شکیبؔ اس کے بغیر
راستہ گھر کا بھلا دیتی ہیں اکثر یادیں
تیز آندھیوں میں اڑتے پر وبال کی طرح
ہر شے گزشتنی ہے مہ و سال کی طرح
کیو ں کر کہوں کہ در پئےآزار ہے وہی
جو آسماں ہے سر پہ مرے ڈھال کی طرح
یوں بے سبب تو کوئی انہیں پوجتا نہیں
کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح
کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے
عریانیوں کو اوڑھ لیا شال کی طرح
اب تک مرا زمین سے رشتہ ہے استوار
رہنِ ستم ہوں سبزۂ پامال کی طرح
میں خود ہی جلوہ ریز ہوں، خود ہی نگاہِ شوق
شفاف پانیوں پہ جھکی ڈال کی طرح
بے نغمہ و صدا ہے وہ بت خانۂ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
وہ پھر رہے ہیں زخم بہ پا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جھکی رہی