چلے تھے حرم کو رہ میں، ہوئے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل، یہ ملا عذاب الٹا
Printable View
چلے تھے حرم کو رہ میں، ہوئے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل، یہ ملا عذاب الٹا
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام اُلٹا
یاں وہ آتش نفساں ہیں کہ بھریں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھی لگا سکتے ہیں
میرے تمہارے رابطے دیکھے بہم تو رشک سے
نل تو پچھاڑ کھا گرا اس کی دمن نے غش کیا
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں
تجھ بن اے نور بصر دکھنے لگا
انشا سے نہ روٹھ، مت خفا ہو
ہے بندۂ جاں نثار تیرا
موسمِ عیش ہے یہ عہد جوانی، انشا
دور ہیں تیرے ابھی زہد و عبادات کے وقت
دو گلابی لا کے ساقی نے کہا انشا کو رات
زعفرانی میرا حصہ، ارغوانی آپ کی
آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات تجھ کو کہنی ہے مجھ سے یہیں سہی