کب سے ہوں حسرتی، یک نگہِ گرم، کہ جو
محفلِ شوق کے آداب مجھے سمجھا دے
Printable View
کب سے ہوں حسرتی، یک نگہِ گرم، کہ جو
محفلِ شوق کے آداب مجھے سمجھا دے
رختِ جاں کوئی لٹانے اِدھر آ بھی نہ سکے
ایسے مشکل تو نہیں دشتِ وفا کے جادے
بیتی یادوں کا تقاضا تو بجا ہے لیکن
گردشِ شام و سھر کیسے کوئی ٹھہرا دے
مجھ کو زنداں میں بھی مل جائے گا عنوانِ جنوں
نگہتِ گُل کو کریں قید خیاباں زادے
مانندِ صبا جدھر گئے ہم
کلیوں کو نہال کر گئے ہم
زنجیر بپا اگر گئے ہم
نغموں کی طرح بکھر گئے ہم
سورج کی کرن تھے جانے کیا تھے
ظلمت میں اُتر اُتر گئے ہم
جب بھی کوئی سنگِ راہ دیکھا
طوفاں کی طرح بپھر گئے ہم
چلنا تھا جہاں محال یارو
اس راہ سے بھی گزر گئے ہم
ہنس ہنس کے گلے ملے قضا سے
تکمیلِ حیات کر گئے ہم
ہم ہیں آج پھر ملول یارو
مرجھا گئے کھِل کے پھول یارو
گزرے ہیں خزاں نصیب ادھر سے
پیڑوں پہ جمی ہے دھول یارو
تا حدِّ خیال لالہ و گُل
تا حدِّ نظر ببول یارو
جب تک کہ ہوس رہی گُلوں کی
کانٹے بھی رہے قبول یارو
ہاں کوئی خطا نہیں تمھاری
ہاں ہم سے ہوئی ہے بھول یارو
کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر
میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر
دشت احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا
اسی بنیاد پہ تعمیر ہوا پیار کا شہر
اس کی ہر بات میں ہوتا ہے کسی بھید کا رنگ
وہ طلسمات کا پیکر ہے کہ اسرار کا شہر
میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے
میں کہیں جاؤں مرے ساتھ ہے دلدار کا شہر
یوں تری گرم نگاہی سے پگھلتے دیکھا
جس طرح کانچ کا گھر ہو مرے پندار کا شہر
مسکراتے رہیں سینے کے دہکتے ہوئے داغ
دائم آباد رہے درد کی سرکار کا شہر
خموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھ بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہو جائے
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرز بر اندام ہو جائے
مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ اور صحرا نام ہو جائے
شکیبؔ اپنے تعارف کیلئے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
دیکھتی رہ گئی محرابِ حرم
ہائے انسان کی انگڑائی کا خم
جب بھی اوہام مقابل آئے
مثلِ شمشیر چلی نوکِ قلم
پرِ پرواز پہ یہ راز کھُلا
پستیوں سے تھا بلندی کا بھرم
غم کی دیوار گری تھی جن پر
ہم وہ لوگ ہیں اے قصرِ اِرم
چاندنی غازۂ پائے جولاں
کہکشاں جادۂ ابنِ آدم
چاندنی غازۂ پائے جولاں
کہکشاں جادۂ ابنِ آدم
ایک تارہ بھی نہ پامال ہوا
ایسے گزرے رہِ افلاک سے ہم
باقی ہے یہی ایک نشاں موسمِ گل کا
جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گل کا
جب پھول مرے چاکِ گریباں پہ ہنسے تھے
لمحہ وہی گزرا ہے گراں موسمِ گل کا
نادان گھٹاؤں کے طلب گار ہوئے ہیں
شعلوں کو بنا کر نگَراں موسمِ گل کا
سوکھے ہوئے پتّوں کے جہاں ڈھیر ملے ہیں
دیکھا تھا وہیں سیلِ رواں موسمِ گل کا
دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلا انمول دیا
پیروں میں زنجیریں دالیں ہاتھوں میں کشکول دیا
اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے گگن میں اپنا کاجل گھول دیا
یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے
وہ بھی ہیں جن کو بس رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا