وہ دوریوں کا رہِ آب پر نشان کھلا
وہ رینگنے لگی کشتی وہ بادبان کھلا
Printable View
وہ دوریوں کا رہِ آب پر نشان کھلا
وہ رینگنے لگی کشتی وہ بادبان کھلا
مرے ہی کان میں سرگوشیاں سکوت نے کیں
مرے سوا کبھی کس سے یہ بے زبان کھلا
سمجھ رہا تھا ستارے جنہیں وہ آنکھیں ہیں
مری طرف نگران ہیں کئی جہان کھلا
مرا خزانہ ہے محفوظ میرے سینے میں
میں سو رہوں گا یونہی چھوڑ کر مکان کھلا
ہر آن میرا نیا رنگ ہے نیا چہرہ
وہ بھید ہوں جو کسی سے نہ میری جان کھلا
جزا کہیں کہ سزر اس کو بال و پر والے
زمیں سکڑتی گئی، جتنا آسمان کھلا
لہو لہو ہوں سلاخوں سے سر کو ٹکرا کر
شکیبؔ بابِ قفس کیا کہوں کس آن کھلا
دل میں لرزاں ہے ترا شعلۂ رخسار اب تک
میری منزل میں نہیں رات کے آثار اب تک
پھول مُرجھا گئے، گُلدان بھی گِر کر ٹوٹا
کیسی خوشبو میں بسے ہیں در و دیوار اب تک
حسرتِ دادِ نہاں ہے مرے دل میں شاید
یاد آتی ہے مجھے قامتِ دلدار اب تک
وہ اُجالے کا کوئی سیلِ رواں تھا، کیا تھا؟
میری آنکھوں میں ہے اک ساعتِ دیدار اب تک
تیشۂ غم سے ہوئی روح تو ٹکڑے ٹکڑے
کیوں سلامت ہے مرے جسم کی دیوار اب تک
دشت و صحرا اگر بسائے ہیں
ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں
آپ نغموں کے منتظر ہوں گے
ہم تو فریاد لے کے آئے ہیں
ایک اپنا دیا جلانے کو
تم نے لاکھوں دئے بجھائے ہیں
کیا نظر آئے گا ابھی ہم کو
یک بیک روشنی سے آئے ہیں
یوں تو سارا چمن ہمارا ہے
پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں
اتر گیا تن نازک سے پتیوں کا لباس
کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس
اب اپنے جسم کے سائے میں تھک کے بیٹھ رہو
کہیں درخت نہیں راستے میں دور نہ پاس
ہزار رنگ کی ظلمت میں لے گئی مجھ کو
بس اک چراغ کی خواہش بس اک شرار کی آس
تمہارے کام نہ آئے گا جو بھی دانا ہے
ہر ایک شخص پہ کیوں کر رہے ہو اپنا قیاس
کسی کی آس تو ٹوٹی کوئی تو ہار گیا
کہ نیم باز دریچوں میں روشنی ہے اداس
بھولا نہیں ہوں مقتلِ امید کا سماں
تحلیل ہو رہا تھا شفق میں سحر کا رنگ
وہ کالے کو کی دوری اب ایک خواب سی ہے
تم آ گئے ہو مگر کب نہ تھے ہمارے پاس
یہ کیا طلسم ہے، جب سے کنارِ دریا ہوں
شکیبؔ اور بھی کچھ بڑھ گئی یے روح کی پیاس
پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں دوست
اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست
ترکِ الفت بھی نہیں کر سکتے
ساتھ دینے سے بھی معذور ہیں دوست
گفتگو کے لئے عنواں بھی نہیں
بات کرنے پہ بھی مجبور ہیں دوست
یہ چراغ اپنے لیے رہنے دو
تیر راتیں بھی تو بے نور ہیں دوست
سبھی پژ مردہ ہیں محفل میں شکیبؔ
میں پریشان ہوں رنجور ہیں دوست
موج غم اس لئے شاید نہیں گزری سر سے
میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے
اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا
آئنہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے
کتنی گم سم مرے آنگن سے صبا گزری ہے
اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے
پیار کی جو سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ
اک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے
اڑتے بادل کے تعاقب میں پھرو گے کب تک
درد کی دھوپ میں نکلا نہیں کرتے گھر سے
کتنی رعنائیاں آباد ہیں میرے دل میں
اک خرابہ نظر آتا ہے مگر باہر سے
وادیِ خواب میں اس گل کا گزر کیوں نہ ہوا
رات بھر آتی رہی جس کی مہک بستر سے
طعنِ اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیبؔ
خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے
یاد کے دائرے کیوں پھیلتے جاتے ہیں شکیبؔ
اس نے تالاب میں کنکر ابھی پھینکا ہی نہیں
جو بھی ہے طالبِ یک ذرّہ، اُسے صحرا دے
مجھ پہ مائل بہ کرم ہے تو مجھے دریا دے