لینی ہے جنسِ دل تو ظالم! تو آج لے چُک
پڑ جائے گا وگرنہ پھر اس کاکل کو توڑا
Printable View
لینی ہے جنسِ دل تو ظالم! تو آج لے چُک
پڑ جائے گا وگرنہ پھر اس کاکل کو توڑا
گل سے زیادہ نازک جو دلبرانِ رعنا
ہیں بیکلی میں شبنم کے پیرہن کے اندر
آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات تجھ کو کہنی ہے مجھ سے یہیں سہی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا ہو کچھ بُرا
میری طرف کو دیکھئے! میں نازنیں سہی
ہر وصلی سرکار پہ جدول ہے طلائی
اب آپ لگے رکھنے بڑی شان کے کاغذ
یاں و آتش نفساں ہیں کہ بھریں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھی لگا سکتے ہیں
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں
تجھ بِن اے نور بصر دُکھنے لگا
کیا خدائی ہے منڈانے لگے اب خط وہ لوگ
دیکھ کر ڈیوڑھی میں چھپ رہتے تھے جو نائی کو
گرچہ ہیں آبلہ پا دشت جنوں کے اے خضر
تو بھی تیار ہیں ہم مرحلہ پیمائی کو
گالی وہ اس کی ہو ہو کی آنکھیں دکھاتے وقت
ہے واقعی کہ پستہ و بادام سے لذیذ