بہر تسکینِ دیدہ و دل و جاں
رسمِ ناگفتنی ادا کرتے
Printable View
بہر تسکینِ دیدہ و دل و جاں
رسمِ ناگفتنی ادا کرتے
پھُول کھِلتے سرِ فضا ماجدؔ
ہونٹ بہرِ سخن جو وار کرتے
گھِر کر بہ سحرِ قُرب بھلا اب کھنچے گا کیا
پگھلے بدن کے ساتھ مجھے تُو کہے گا کیا
خاموش کیوں ہے دے بھی مُجھے اِذنِ سوختن
شُعلہ نظر سے اور بھی کوئی اُٹھے گا کیا
یہ ولولہ مرا کہ ضیا بار تُجھ پہ ہَے
سُورج ہے گر تو میرے اُفق سے ڈھلے گا کیا
خواہش کا چاند آ ہی گیا جب سرِ اُفق
باقی کوئی حجاب بھلا اب رہے گا کیا
یہ لطفِ دید، یہ ترا پیکر الاؤ سا
منظر نگاہ پر کوئی ایسا کھُلے گا کیا
کرتا ہے کیوں سخن میں عبث نقش کاریاں
ماجدؔ صلہ بھی کوئی تُجھے کچھ ملے گا کیا
گُنگ جذبوں کو چہچہانے دو
لفظ مُنہ پر کوئی تو آنے دو
پھینک کر اب کے آخری پتّا
کھیل کو رُخ نیا دلانے دو
سیج پر شاخِ آرزُو سے گری
پتّیاں تُم مجھے بچھانے دو
وقت کے جلترنگ سے نہ ڈرو
اِس کو یہ ساز اب بجانے دو
جن پہ سُورج کبھی نہیں اُبھرا
وُہ اُفق اب کے جگمگانے دو
یہ اعادہ ہی بچپنے کا سہی
کُچھ گھروندے مگر بنانے دو
اشک دے گا پتہ ضرور اپنا
خاک میں یہ نمی سمانے دو
٭٭٭
لے کے پھرتی ہیں رُتیں شوخ ادائیں تیری
پھُول کھِل کھِل کے مجھے یاد دلائیں تیری
تیرے پیکر کا گماں یُوں ہے فضا پر جیسے
پالکی تھام کے پھرتی ہوں ہوائیں تیری
جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں، کالے ہوئے نہیں
چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں
انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں
طے کی ہے ہم نے صورتِ مہتاب راہِ شب
طولِ سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں
ڈس لیں تو ان کے زہر کا آسان ہے اُتار
یہ سانپ آستین کے پالے ہوئے نہیں
تیشے کا کام ریشۂ گُل سے لیا شکیبؔ
ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں
کچھ دن اگر یہی رہا دیوار و در کا رنگ
دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ
دنیا غریقِ شعبدۂ جام جم ہوئی
دیکھے گا کون خونِ دلِ کو زہ گر کا رنگ
الجھتے ہوئے دھوئیں کی فضا میں ہے اک لکیر
کیا پوچھتے ہو شمع سرِ رہ گزر کا رنگ
دامانِ فصل گل پہ خزاں کی لگی ہے چھاپ
ذوقِ نظر پہ بار ہے برگ و ثمر کا رنگ
جمنے لگی شکیبؔ جو پلکوں پہ گردِ شب
آنکھوں میں پھیلنے لگا خوابِ سحر کا رنگ
ہر ایک بات ہے منّت کشِ زباں لوگو
نہیں ہے کوئی بھی اپنا مزاج داں لوگو
کچھ اس طرح وہ حقائق کو سن کے چونک اٹھے
بکھر گئیں سرِ محفل پہیلیاں لوگو
مرے لبوں سے کوئی بات بھی نہیں نکلی
مگر تراش ،کیں تم نے کہانیاں لوگو
بہارِ نو بھی انھیں پھر سجا نہیں سکتی
بکھر گئی ہیں جو پھولوں کی پتّیاں لوگو
بڑا زمانہ ہوا آشیاں کو راکھ ہوئے
مگر نگاہ ہے اب تک دھواں دھواں لوگو
خطا معاف کہ مے سے شکیبؔ منکر ہے
اسے عزیز ہیں دنیا کی تلخیاں لوگو
یہ جلوہ گاہِ ناز تماشائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے
روتے ہیں دل کے زخم تو ہنستا نہیں کوئی
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
دیوانۂ حیات کو اک شغل چاہئیے
نادانیوں سے کام نہ دانائیوں سے ہے
قیدِ بیاں میں آئے جو ناگفتنی نہ ہو
وہ رابطہ جو قلب کی گہرائیوں سے ہے
نادِم نہیں ہوں داغِ فرو مائیگی پہ میں
تیرا بھرم بھی میری جبیں سائیوں سے ہے